امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے مناسبت سے حضرت آية الله حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکراني(مدظله کا بیان

درس قبل

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے مناسبت سے حضرت آية الله حاج شیخ محمد جواد فاضل لنکراني(مدظله کا بیان

درس قبل

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١١/٢٧


شماره جلسه : ۵

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں دو موضوع ہیں جن پرتوجہ کرنی چاہئے ، ایک موضوع'' امام عسکری علیہ السلام کی زندگی اورآپ کی امامت کا ہے ۔ جس کی مدت چھ سال تھی .

  • دوسرا موضوع '' امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز ہے جو تاریخ شیعہ کے بہت نازک ترین نقاط میں سے ایک ہے ۔

  • یہ دور یعنی امام عسکری کی امامت کا اور وہ مقدمات جو امام عسکری علیہ السلام نے امام زمانہ عج کی امامت کے لئے فراہم کیے ، تاریخ شیعہ کا نازک دور کہلاتا ہے علماء و طلاب اورشیعیان عزیزکو تاریخ کے اس حصے پر گہرائی سے توجہ کرنی چاہئے ، تاکہ وہ مضبوط اعتقادات جو حضرت حجت عج کے متعلق ہیں اورمضبوط انداز سے باقی رہیں ۔

دیگر جلسات

بسم اللہ الرحمن ا لرحیم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
 امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں یہاں دو موضوع ہیں جن پرتوجہ کرنی چاہئے ، ایک موضوع'' امام عسکری علیہ السلام کی زندگی اورآپ کی امامت کا ہے ۔ جس کی مدت چھ سال تھی اور یہ کم عرصہ تھا.
دوسرا موضوع '' امام زمانہ عج کی امامت کا آغاز ہے جو تاریخ شیعہ کے بہت نازک ترین نقاط میں سے ایک ہے ۔
یہ دور یعنی امام عسکری کی امامت کا اور وہ مقدمات جو امام عسکری علیہ السلام نے امام زمانہ عج کی امامت کے لئے فراہم کیے ، تاریخ شیعہ کا نازک دور کہلاتا ہے علماء و طلاب اورشیعیان عزیزکو تاریخ کے اس حصے پر گہرائی سے توجہ کرنی چاہئے ، تاکہ وہ مضبوط اعتقادات جو حضرت حجت عج کے متعلق ہیں اورمضبوط انداز سے باقی رہیں ۔
میں دو حصوں میں کچھ نکات عرض کروں گا ، پہلے حصے میں امام عسکری علیہ السلام کے متعلق کچھ نکات عرض کروں گا ، کیونکہ سال بھر میں بھی اس اما م عالیمقام علیہ السلام کے بارے میں کم گفتگو ہوتی ہے دوسرے حصے میں امام عسکری علیہ السلام نے امام زمانہ کے بارے میں جو زمینہ ہموار کیا او رلوگوں کو آگاہ فرمایا اس کے بارے میں عرض کروں گا ۔
امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں نہ صرف آپ کے مخالفین آپ کی امامت کے معترف تھے بلکہ اس وقت کاحاکم (معتمد عباسی) بھی امام عسکری علیہ السلام کی امامت کا اعتراف کرتا تھا، بنیادی طور پر تاریخ کے مسلمہ امور میں سے ایک یہ ہے کہ بنو امیہ کے حکام اور بنو عباس کے حکام دونوں اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں رکھتے تھے کہ امامت ، آئمہ طاہرین علیہم السلام کا مسلمہ حق ہے ، ان کے لئے واضح تھا کہ امامت اہلبیت علیہم السلام کا حق اوران کی شان میں ہے اس کے علاوہ امامت سے متعلق روایات و دلائل که یہی حکمران ان کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتے تھے ،خودآئمہ کی زندگی وآثاراوراوصاف بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امامت اہلبیت کا حق ہے ۔
امام عسکری علیہ السلام کے بھائی جعفر، معتمد عباسی سے کہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرو کہ میں شیعوں کے لئے امام کے عنوان سے منصوب ہو جاؤں ، معتمد عباسی جعفر کے جواب میں یوں کہتا ہے'': «إعْلَمْ أَنَّ مَنْزِلَةَ أَخِيكَ لَمْ تَكُنْ بِنَا إِنَّمَا كَانَتْ بِاللَّهِ عَزَّوَجَلَّ»'' یہ مقام و مرتبہ جو تیرا بھائی کا ہے وہ ہمارے اختیار سے باہر ہے ہم نے ان کو یہ مرتبہ نہیں دیا ہے یہ مرتبہ تو خداوند عزوجل نے ان کو دیا ہے ۔
ایک نکتہ یہ کہ جو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض افراد اس وقت شبہ پھیلانے کی کوشش میں ہیں یہ ہے اورچاہتے ہیں کہ امامت کو اس کے مقام و مرتبہ سے نیچے لائیں ، جبکہ انہیں ابتدائی صدیوں میں معتمد عباسی نے اعتراف کیا ، آئمہ طاہرین علیہم السلام کی دشمنوں کا اعتراف ہے کہ وہ کہتا ہے کہ یہ مقام و مرتبہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ، ہم نے ان کو نہیں دیا ہے یہ مقام تو خداوند تبارک وتعالی کے اذن سے ہے ۔
اس کے بعد وہ کہتا ہے صرف وہ کام جوہم کرسکتے ہیں '' نَحْنُ كُنَّا نَجْتَهِدُ فِي حَطِّ مَنْزِلَتِهِ وَ الْوَضْعِ مِنْهُ وَ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَأْبَى إِلَّا أَنْ يَزِيدَهُ كُلَّ يَوْمٍ رِفْعَةً بِمَا كَانَ فِيهِ مِنَ الصِّيَانَةِ وَ حُسْنِ السَّمْتِ وَ الْعِلْمِ وَ الْعِبَادَة» ہماری کوشش تو یہ ہے کہ ہم ان کو لوگوں کی نظروں سے گرادیں ، لوگوں کے درمیان ان کے مقام و مرتبہ کو کمزور کردیں ، ( یہ بھی معتمد عباسی کا اقرار ہے کہ وہ اس کوشش میں ہے کہ امام عسکری علیہ السلام کے مقام ومرتبہ کو لوگوں کے سامنے کم کرے ) لیکن جو بھی ہوخداوندعالم کا ارادہ یہ ہے کہ ان کو بلند کرے ، کس دلیل کے تحت ؟ دلیل علم ،عبادت اور ان صفات کی بناء پر جو ان کے اندر ہیں ۔
امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں دوسرا نکتہ اوروہ دلچسپ واقعات جو ان امام کے زمانے میں واقع ہوئے ، شیعہ کی حقانیت اور امام عسکری علیہ السلام کی امامت کے بارے میں دوسرے مذاہب کا اعتراف ہے ،اگر ہم تاریخ کی جانچ پڑتال کریں تو یہ اہم بات سامنے آئے گی کہ آئمہ معصومین علیہم السلام کی امامت کہ جن میں امام عسکری علیہ السلام بھی ہیں کا اقرار صرف شیعہ نہیں کرتے تھے بلکہ دوسرے مذاہب بھی تھے ، قسیسین تھے ، کشیش تھے ، رہبان تھے اور دوسرے مذاہب کے علماء سبھی تھے ، یعنی یہود و نصاری کے علماء جو امام عالیمقام کے زمانے میں تھے سب امام عسکری علیہ السلام کی امامت اوراہلبیت عصمت وطہارت کے معترف تھے ۔
انوش نصرانی کا واقعہ بہت مشہور ہے اس نے معتمد عباسی سے کہا کہ وہ امام عسکری علیہ السلام سے ان کے دو بیٹوں کی تندرستی اور صحت یابی کے لئے دعا کرنے کوکہے ، انوش نے جو جملہ کہا ہے یہ ہے : نحن نتبرك بدعاء بقايا النبوة و الرسالة» ہم نبوت و رسالت کے خاندان سے دعا کوتبرک کرتے ہیں اور ان کی برکت سے ہماری مشکلیں حل ہوتی ہیں ۔
قصہ مفصل ہے : جب امام عسکری علیہ السلام سے کہا گیا کہ انوش نصرانی نے ایسا جملہ ''نحن متبرک۔۔۔۔۔۔'' کہا ہے تو امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا : «الحمدلله الذي جعل النصراني أعرف بحقنا من المسلمين»خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہمارے حق کے متعلق نصارا کو مسلمانوں سے زیادہ آگاہ قرار دیا،اس سے مراد خود امام علیہ السلام کے زمانے کے مسلمان ہیں وہ بھی سارے نہیں بلکہ ان میں سے ایک گروہ یعنی وہ لوگ جو اسلام کا دعوا کرتے تھے اورخلافت کو غصب کیا اوراپنے کو مسلمانوں کا حاکم قراردیا تھا،اس کے بعد امام علیہ السلام انوش نصرانی کے گھر گئے ، تاریخ میں لکھا ہے کہ انوش کس انداز سے امام علیہ السلام کے استقبال کو گیا کہ «فخرج إليه مكشوف الرأس حافي القدمين»سروپیر برہنہ امام کے استقبال کو گیا اور اس کے گرد قسیسین تھے شمامسہ تھے ( شمامسہ قسیسین سے نچلے درجہ کے روحانی) جو انوش کے ساتھ امام کے استقبال پرنکلے تھے  «و حوله القسيسون و الشمامسة و الرهبان» اس کے سینہ پر ایک انجیل تھی «و على صدره الإنجيل» ہم نے آپ سے اسی کتاب کے ذریعہ متوسل ہوئے کہ جس کے آپ ہم سے زیادہ عالم ہیں ،اس کے بعد امام علیہ السلام سے عرض کیا ا. «فتلقاه على باب داره، و قال له: يا سيدنا أتوسل إليك بهذا الكتاب الذي أنت أعرف به من» کہ اس کتاب کے واسطے آپ کو جو تکلیف دی ہے ،«الا غفرت لي ذنبي في عنائك» مجھے معاف فرما  : «و في حق المسيح بن مريم و ما جاء به من الإنجيل من عند الله»اورمسیح بن مریم کے واسطے کہ جس کا وہ خود عقیدہ رکھتے تھے ، اور انجیل کے واسطے ،اگر میں آپ کا مزاحم ہواهوں اور خواہش کی هے تو اس وجه سے هے که بہت اہم جملہ ہے کہ کہتا ہے: «ما سألت من أميرالمؤمنين مسألتك هذا إلا لأنّا وجدناكم في هذا الإنجيل مثل المسيح بن مريم عندالله» میں آپ سے جو متوسل ہوا ہوں اور آپ سے اپنے بچوں کی شفاء کے لئے درخواست کی ہے تو اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے اس انجیل میں خدا کے نزدیک آپ کے مرتبہ کو حضرت مسیح کے مرتبہ کے مانند پایا ، (وہ انجیل جوحضرت امام عسکری علیہ السلام کے زمانے میں تھی)۔
معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کے اوصیاء کی خصوصیات بھی اس کتاب میں تھے ، یہ ایسے نکات ہیں کہ جن کے اوپر ہمیں بہت غور کرنا چاہئے ،آج شاید مختلف انجیل ہوں ، لیکن امام عسکری علیہ السلام کے زمانے کے بعد تقریباً بارہ سو سال گزرنے کے بعد شاید پیغمبر کے ان اوصیاء کے بارے میں کوئی چیز نہ ملے ، اگرچہ بعض اناجیل میں کچھ اشارے ملتے ہیں ۔
لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ انجیل جو اس وقت تھی اور وہ پادری خود اعتراف کرتا ہے کہ ہم اس کتاب میں خدا کے نزدیک آپ کے مرتبہ کو مسیح کا مرتبہ ہی دیکھتے ہیں ، البتہ ہمارا عقیدہ ہے آئمہ حضرت مسیح سے بہت بالاتر ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام تمام انبیاء سے افضل ہیں اس کی دلیل بھی موجود ہے ، لیکن ان نصرانیوں کی معرفت کی مقدار اس قدر تھی ، البتہ یہی افراد بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی کتاب میں آپ کے مقام ومرتبہ کو دیکھا اور خدا کے نزدیک آپ کا مرتبہ عیسی سے کم نہیں ،اس لئے آپ سے درخواست کی ہے کہ یہاں تشریف لائے ، امام نے اس کے بیٹوں کو دیکھا اور فرمایا : یہ بیٹا زندہ رہے گا اور شیعہ ہو جائے گا اوراہلبیت عصمت و طہارت کے دوستوں میں سے ہوگا ، لیکن دوسرا تین دن کے بعد دنیا سے رخصت ہو جائے گا تاریخ میں ہے کہ وہی کچھ ہوا جو امام علیہ السلام نے بیان فرمایا تھا ۔
پس یہ حاکم عباسی اورمختلف مذاہب کا امام عسکری علیہ السلام کے بارے میں اعتراف ہے امام عسکری ایک معصوم امام اور حقیقت مسلمہ ہے کہ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی اولاد میں سے ہیں جن کا یہ مقام و مرتبہ ہے کہ جو انی کے عالم میں ہی حاکم عباسی اور دوسرے سارے آپ کے احترام ایک عام آدمی کے لحاظ سے نہیں بلکہ خدا کی منتخب فرد وشخصیت کے لحاظ سے کرتے ہیں ۔
امام عسکری علیہ السلام کے زہد وعبادت کے اعتبار سے یہی مشہور واقعہ کافی ہے کہ زمانے کے سب سے برے دو آدمیوں کو امام کازندان بان مقررکر دیا گیا ، کچھ عرصہ بعد دیکھا گیا کہ وہ دونوں عبادت گزار ہوگئے ہیں ، ان کو بلایا گیا اور ڈانٹ کے کہا گیا کہ ہم نے تم دونوں کو نگرانی کے لئے بھیجا تھا ،لیکن تم دونوں ہی بدل گئے ہو؟ ان دونوں نے کہا : «مَا تَقُولُ فِي رَجُلٍ يَصُومُ النَّهَارَ وَ يَقُومُ اللَّيْلَ كُلَّهُ لَا يَتَكَلَّمُ وَ لَا يَتَشَاغَلُ وَ إِذَا نَظَرْنَا إِلَيْهِ ارْتَعَدَتْ فَرَائِصُنَا وَ يُدَاخِلُنَا مَا لَا نَمْلِكُهُ مِنْ أَنْفُسِنَ»تم کیا کہتے ہو،ایک ایسے شخص سے ہمارا واسطہ پڑا ہے جو راتوں کو عبادت کرتا ہے ،دن کو روزے رکھتا ہے کوئی بات نہیں کرتا اور ہمیشہ عبادت میں مصروف ہے ۔
یہاں پر یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے خاص طور پر ہم طلاب علوم دینی کو کہ آئمہ کو جب بھی کوئی فرصت ملتی تھی ، ظاہری طور پر تو زمانہ والے ان کو محدود کرتے تھے اور آئمہ کوئی کام انجام نہیں دے سکتے تھے ، ایسے وقت میں آئمہ زیادہ تر عبادت اور خدا کی بندگی میں مشغول رہتے تھے ،اس کی تلاش میں رہتے تھے کہ عبادت و بندگی کے لئے کوئی فرصت مل جائے ۔
ہمیں بھی کسی حد تک ایسا ہونا چاہئے ، ہمارے عمل سے اسلام ، تقوی ا ور خدا کی بندگی ظاہر ہونی چاہئے ، یہ ریا کی خاطر نہ ہو کہ خدانخواستہ دوسروں کو دکھانے کے لئے ہم ان نیک کاموں کے پیچھے رہیں ۔ خاص طور پر ہم اس دور میں زیادہ اس کے محتاج ہیں کہ لوگ ہمیں عمل میں دیکھیں کہ ہم زاہد ہیں نہ دعوا اور نعرہ اور نہ دکھاوے میں ،عمل طور پر همیں دیکھیں کہ ہم عبادت گزار ہیں ، عمل میں دیکھیں کہ ہم دنیا پرست نہیں ، ہم دنیا سے اعراض کرتے ہیں ، یہ ہمارے تمام آئمہ علیہم السلام کی سیرت میں تھا،خاص طورپر امام عسکری علیہ السلام کی سیرت میں ، یہ کچھ نکات ہیں امام عسکری کے بارے میں ، البتہ گفتگو اس سے کہیں زیادہ مفصل ہے کیونکہ امام عسکری نے تین عباسی حکمرانوں کا دور دیکھا ، اس وقت کیا کیا مسائل رونما ہوئے ،ان تینوں حکمرانوں کے ساتھ امام کا رویہ کیسا تھا ؟ یہ بھی بہت تفصیلی گفتگو ہے ، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں ، یہ امام عسکری کی شخصیت کے بارے میں ۔
البتہ تاریخ شیعہ کا اس سے بھی اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ آج اہل سنت کا بھی عقیدہ ہے کہ امام زمانہ آئیں گے ، وہی شخص جن کے بارے میں مصلح کل کے عنوان سے وعدہ دیا گیا ہے کہ آخر زمان میں آئیں گے ، اہل سنت اس کلی کو قبول بھی کرتے ہیں ، لیکن کہتے ہیں کہ ابھی تک پیدا نہیں ہوئے ہیں ، ہم ان سے اس مقام پر یہ کہتے ہیں کہ آپ امام حسن عسکری علیہ السلام کو تو مانتے ہو ، تمہاری کتابوں میں ذکر ہے ، سبط بن جوز ی کتاب تذکرة الخواص میں جب امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں تو کہتے ہیں ''عالماً ثقۃً'' ایک ثقہ عالم کے عنوان سے امام کا ذکر کرتے ہیں ، کہتے ہیں : «روي الحديث عن أبيه عن جده»  تم اہل سنت خود امام حسن عسکری کو ایک ثقہ کے لحاظ سے مانتے ہو،امام زمانہ (عج) کے بارے میں امام عسکری کی چالیس احادیث موجود ہیں ، آپ نے امام زمانہ کی ولادت کی جو بشارت دی وہ ولادت سے پہلے ہی هےاورخصوصیات بھی بیان فرمائے ، نام بھی بتایا اور تفصیلات بھی بیان فرمائے ، آپ ان چالیس روایات کے سامنے کیا جواب دیتے ہو؟اگر اعتراف کرتے ہو کہ امام عسکری عالم و ثقہ ہیں اگرچہ تم اس حد تک نہیں ہو کہ امام کی امامت کو سمجھ سکو، امام زمانہ (عج) کی ولادت اور خصوصیات کے بارے میں امام عسکری سے متعدد روایات موجود ہیں او ر یہ کہ امام زمان (عج) خدا کی حجتوں میں سے آخری حجت اورآپ کی طولانی غیبت ہوگی۔
ایک روایت میں حسن بن محمد بن صالح بزاز کہتاهے: «سمعت حسن بن علي يقول میں نے حسن بن علی علیہما السلام سے یہ فرماتے ہوئے سنا : «إِنَّ ابْنِي هُوَ الْقَائِمُ مِنْ بَعْدِي وَ هُوَ الَّذِي يَجْرِي فِيهِ سُنَنُ الْأَنْبِيَاءِ(ع) بِالتَّعْمِيرِ وَ الْغَيْبَةِ حَتَّى تَقْسُوَ قُلُوبٌ لِطُولِ الْأَمَدِ وَ لَا يَثْبُتَ عَلَى الْقَوْلِ بِهِ إِلَّا مَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي قَلْبِهِ الْإِيمَانَ وَ أَيَّدَهُ بِرُوحٍ مِنْه‏»  آپ جانتے ہیں کہ امام عسکری کا ایک سے زیادہ بیٹا نہیں تھا ، یعنی امام زمانہ عج کے بہن بھائی نہیں تھے ، اس کے بعد فرماتے ہیں کہ وہ فرد جو میرے بعدحجت ہے اورطولانی عمر اورطولانی غیبت کے لحاظ سے ان میں انبیاء کی سنتیں جاری ہوں گی، ان کی غیبت طولانی ہوگی کہ جس کی وجہ سے لوگوں میں سخت دلی آئے گی ، صرف وہ آدمی اس قول پر ثابت اورحقیقی منتظروں میں سے ہوگا جس میں خداوند کی جانب سے دو چیزیں ہوں، ایک یہ کہ خدا نے اس کے دل میں ایمان راسخ کر دیا ہو، دوسری یہ کہ ''ایّدہ بروح منہ'' اپنی جانب سے ایک روح کے ذریعہ تائید فرمائی ہو، پس آخری حجت پر عقیدہ کا ایک اضافی پہلو بهی ہے اور وہ یہ کہ جو مومنین انتظار کرنا چاہتے ہیں ان کےلئے خدا کی جانب سے کوئی تائید بھی ہوتی ہو۔
ایک اورروایت محمد بن عبد الجبار نقل کرتے ہیں کہ امام عسکری علیہ السلام نے فرمایا: : «إِنَّ الْإِمَامَ وَ الْحُجَّةَ بَعْدِيَ ابْنِي سَمِيُّ رَسُولِ اللَّهِ(ص) وَ كَنِيُّهُ الَّذِي هُوَ خَاتِمُ حُجَجِ اللَّهِ وَ خُلَفَائِهِ»میرے بعد امام اور حجت ہے اور رسول خدا کا ہمنام ،اور آپ کی کنیت بھی رسول خدا کی کنیت ہوگی، یہ جملے امام عسکری حضرت امام زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں ۔
ایک اورنکتہ جس کی جانب ہم یہاں اشارہ کریں یہ ہے کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام میں سے امام عسکری ، امام صادق اور امام علی نقی نے زمانہ غیبت کے حوالے سے بھی مومنوں کے وظیفہ کو واضح کر دیا ہے ، یعنی ہماری روایات میں صرف یہ نہیں ہے کہ صرف امام زمانہ کی غیبت کے بارے میں کہدیں۔
امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: «لَوْ لَا مَنْ يَبْقَى بَعْدَ غَيْبَةِ قَائِمِنَا(ع) مِنَ الْعُلَمَاءِ الدَّاعِينَ إِلَيْهِ وَ الدَّالِّينَ عَلَيْهِ وَ الذَّابِّينَ عَنْ دِينِهِ بِحُجَجِ اللَّهِ وَ الْمُنْقِذِينَ لِضُعَفَاءِ عِبَادِ اللَّهِ مِنْ شِبَاكِ إِبْلِيسَ وَ مَرَدَتِهِ وَ مِنْ فِخَاخِ النَّوَاصِبِ لَمَا بَقِيَ أَحَدٌ إِلَّا ارْتَدَّ عَنْ دِينِ اللَّهِ وَ لَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يُمْسِكُونَ أَزِمَّةَ قُلُوبِ ضُعَفَاءِ الشِّيعَةِ كَمَا يُمْسِكُ صَاحِبُ السَّفِينَةِ سُكَّانَهَا أُولَئِكَ هُمُ الْأَفْضَلُونَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ»ہماری آخری حجت کی غیبت کے زمانہ میں خدا اوراس کے دین کی جانب دعوت دینے والے علماء و فقہاء نہ ہوتے ، وہ علماء اور فقہاء جو امام زمانہ کی جانب دعوت دیں اور دین کا دفاع کریں اگر لوگوں اور خدا کے بندوں کو ابلیس اور ناصبیوں کے جال سے نجات دینے والے علماء نہ ہوتے تو سارے لوگ خدا کے دین سے پھر جاتے ،یہ علماء و فقہاء ہیں جو ضعیف شیعوں کے دلی رابطوں کو بچاتے ہیں ان کو ابلیس کے جال میں پھنسنے سے روکتے ہیں ۔
زمانہ غیبت میں علماء اور فقہاء کی جانب یہ توجہ جو ہوئی ہے خود آئمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے ہوئی ہے ، تاکہ ہمارے لوگوں کو اچھی طرح سے واضح ہو جائے کہ دینداری کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور یہ کہ دین کو علماء اور فقہاء سے لیاجائے ،مراجع تقلید سے دین لیا جائے ، اگر کہیں کچھ لوگ پید ا ہوجائیں جو کہدیں کہ اسلام کو سمجھنے کے لئے ہمیں علماء کی ضرورت نہیں تو یہ بات آئمہ معصومین کے واضح ارشادات کے خلاف ہے ، یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں ، خصوصاً ان دنوں میں کہ جب انقلاب اسلامی کی کامیابی کی سالگرہ بھی ہے یہ سب جان لیں کہ اس انقلاب کا اصلی جوہر ''دین '' ہے اس انقلاب کا اصلی جوہر''علماء '' ہے 'اس انقلاب کا اصلی جوہر'' فقہاء سے ہی صحیح دین لینا ہے '' امام خمینی رضوان اللہ جیسے اکابر جو ان تمام علماء میں سر فہرست ہیں اور دوسرے بزرگ علماء ، یہ بات ہمارے لئے معلوم ہونا چاہئے کہ جب ہم ان روایات کو مد نظر رکھتے ہیں تو عوام الناس کا فریضہ بالکل واضح ہوتا ہے ۔
اہل سنت بھی امام عسکری کے وجود کو مانتے ہیں ، یہ بھی مانتے ہیں کہ کس تاریخ کو پیدا ہوئے اور کونسی تاریخ میں شہید ہوئے ،اور آپ کا مقام و مرتبہ کیا ہے ، انہوں نے اپنے علم رجال کی کتابوں میں امام کو ثقہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، امام زمانہ کے بارے امام عسکری کی ٤٠ روایات بھی ہیں ،پس وہ کیسے امام زمانہ اور آپ کی ولادت کا انکار کر سکتے ہیں ۔
ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص نے امام زمانہ کے حوالے سے امام عسکری سے پوچھا :حسن بن ظریف کہتے ہیں : «اخْتَلَجَ فِي صَدْرِي مَسْأَلَتَانِ أَرَدْتُ الْكِتَابَ فِيهِمَا إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ(ع) فَكَتَبْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الْقَائِمِ(ع) إِذَا قَامَ بِمَا يَقْضِي وَ أَيْنَ مَجْلِسُهُ الَّذِي يَقْضِي فِيهِ بَيْنَ النَّاسِ وَ أَرَدْتُ أَنْ أَسْأَلَهُ عَنْ شَيْ‏ءٍ لِحُمَّى الرِّبْعِ فَأَغْفَلْتُ خَبَرَ الْحُمَّى فَجَاءَ الْجَوَابُ سَأَلْتَ عَنِ الْقَائِمِ فَإِذَا قَامَ قَضَى بَيْنَ النَّاسِ بِعِلْمِهِ كَقَضَاءِ دَاوُدَ(ع) لَا يَسْأَلُ الْبَيِّنَةَ وَ كُنْتَ أَرَدْتَ أَنْ تَسْأَلَ لِحُمَّى الرِّبْعِ فَأُنْسِيتَ فَاكْتُبْ فِي وَرَقَةٍ وَ عَلِّقْهُ عَلَى الْمَحْمُومِ فَإِنَّهُ يَبْرَأُ بِإِذْنِ اللَّهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ يا نارُ كُونِي بَرْداً وَ سَلاماً عَلى‏ إِبْراهِيمَ فَعَلَّقْنَا عَلَيْهِ مَا ذَكَرَ أَبُو مُحَمَّدٍ(ع) فَأَفَاقَ»
امام عسکری کی کنیت ''ابو محمد'' تھی ، روای کہتا ہے کہ میرے دوسوال تھے ایک سوال امام عسکری کے بعد حجت کے بارے میں تھا ، امام عسکری سے پوچھا : جب آپ کے حجت قیام کرے تو کس چیز کے وسیلہ سے فیصلے کرے گی' اور وہ مجلس جس میں لوگوں کے درمیان قضاوت کریں گے وہ کہاں ہو گی؟دوسرا سوال بھی تھا جس کو میں بھول گیا ، جب میں خط لکھ کر بھیجدیا تو امام نے فرمایا: تم نے میرے بعد حجت کے بارے میں سوال کیا ، اور یہ پوچھا کہ وہ کس طرح قضاوت کریںگے ، وہ اپنے علم کے تحت قضاوت کریںگے ، حضرت حجت عج کے زمانے کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ گواہی اور قسم پرتوجہ نہیں دیں گے ، بلکہ اپنے علم کے تحت فیصلہ کریں گے ، فقہ میں علم قاضی کی بحث میں اس روایت سے گفتگو ہو سکتی ہے کہ کیا قاضی کے علم کو حجت قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہم کہدیں کہ قاضی کا علم حجت نہیں ہے ، تو ان ادلہ میں سے ایک دلیل یہ روایت ہو سکتی ہے یعنی جب ہم نے کہا کہ یہ امام زمانہ کے ظہور اور آپ کے دور کے مختصات میں سے ہے تو نتیجہ یہ ہے کہ امام زمانہ کے ظہور سے پہلے قاضی کا علم حجت نہیں ہونا چاہئے ۔
اس کے بعد امام نے فرمایا :تمہارا دوسرا سوال بھی تھا کہ جس کو تم بھول گئے ہو،وہ سوال یہ تھا کہ : چار دن میں ایک دن بخارهوتا هے،ایک ایسابخار تھا کہ جس میں ایک شخص مبتلاء ہوا تھا ،وہ چار دن ٹھیک رہتا پھر دوبارہ اسے بخار ہوتا تھا ، امام سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کونسی دعا پڑھے؟ امام نے فرمایا: ایک کاغذ لکھو اورجس شخص کو بخار ہے اس پر باندھو انشاء اللہ ٹھیک ہو جائے گا ، اس کاغذ پر لکھو : «يا نارُ كُونِي بَرْداً وَ سَلاماً عَلى‏ إِبْراهِيمَ». روای کہتا ہے کہ امام نے جو فرمایا تھا اس کو انجام دیا اور بیمار ٹھیک ہو گیا ۔
امید ہے کہ خداوند متعالی امام زمانہ کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے ، امام کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہم سب کو امام کے اعوان و انصار میں قرار دے۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .