موضوع: اخلاقی دروس
تاریخ جلسه :
شماره جلسه : ۱
-
دعا کی آداب میں سے ایک یہ ہے کہ انسان خود توحید کے درجہ پرپہنچ جائے اس کے بعد دعا کریں
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين و صلّي الله علي سيّدنا محمّد و آله الطّاهرين
موضوع : دعا توحید کے دائرہ میں
جمعہ کا دن امام جواد علیہ السلام کی شہادت کا دن ہے ۔
میں یہاں کتاب شریف کافی جلد ٢ صفحہ ٥٣٤ سے ایک روایت نقل کرتا ہوں؛«مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى أَبِي جَعْفَرٍ الثَّانِي(ع) أَسْأَلُهُ أَنْ يُعَلِّمَنِي دُعَاءً فَكَتَبَ إِلَيَّ تَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتَ وَ أَمْسَيْتَ اللَّهُ اللَّهُ اللَّهُ رَبِّيَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً وَ إِنْ زِدْتَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ خَيْرٌ ثُمَّ تَدْعُو بِمَا بَدَا لَكَ فِي حَاجَتِكَ فَهُوَ لِكُلِّ شَيْءٍ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى يَفْعَلُ اللَّهُ ما يَشاءُ»؛محمد بن فضیل کہتا ہے : میں نے حضرت امام جواد الآئمہ (ع) سے عرض کیا :مجھے ایک دعا سیکھا دیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے ؛ آئمہ طاہرین (ع) کے ابعاد وجودی میں سے ایک پہلو یہی دعا کے پہلو ہے ، کہ یہ حضرات خود بھی دعا کرتے تھے اور مومنین اور شیعوں کو بھی دعا کرنا سیکھاتے تھے ،یہ وہ حضرات ہیں جو نہ کسی مدرسہ میں گئے ہیں اور نہ کسی مکتب میں اور نہ کسی استاد کو دیکھا ہے ، اس کے باوجود اتنے عظیم مضامین پر مشتمل دعائیں لوگوں کو سیکھائیں ۔یہ خود اپنی جگہ ان حضرات کا خدا وند متعال سے واقعی طور پر ارتباط رکھنے کو بیان کرتا ہے ۔
فَكَتَبَ إِلَيَّ تَقُولُ إِذَا أَصْبَحْتَ وَ أَمْسَيْتَ» حضرت امام جواد (ع) نے فرمایا :صبح اور شام کے وقت اس ذکر کو پڑھا کرو«اللَّهُ اللَّهُ اللَّهُ رَبِّيَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ» تین دفعہ اسم جلالہ کو پڑھو اور اس کے بعد خدا وند متعالی کی رحمانیت او ررحیمیّت پرتوجہ دو اور اس کے بعد یہ پڑھو: «لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً».قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہماری اکثر دعائیں ،حتی کہ دنیوی مصائب اور مشکلات کے وقت پڑھنے والی دعاوں میں بھی دعا کا محور خداوند متعال کی توحید ہے ۔
یہاں پر بھی اس سائل نے حضرت سے عرض کیا کہ مجھے ایک دعا سیکھاؤ، اس کا ظاہر یہ ہے اس شخص کو کوئی دنیوی مشکل اور پریشانی تھا کہ اس کے ذیل میں فرماتا ہے : «وَ إِنْ زِدْتَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ خَيْرٌ»؛میں نے اس ذکر کو پڑھنے کا بتایا لیکن اگر اس ذکر کو خود زیادہ تکرار کریں تو اس میں تمہاری بہتری ہے «اللَّهُ اللَّهُ اللَّهُ رَبِّيَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئاً»۔
اس کے بعد فرماتا ہے : «ثُمَّ تَدْعُو بِمَا بَدَا لَكَ فِي حَاجَتِكَ»؛اس دعا کو پڑھنے کے بعد اپنی حاجت کو خدا سے طلب کرو۔
ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے «فَهُوَ لِكُلِّ شَيْءٍ بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى يَفْعَلُ اللَّهُ ما يَشاءُ»؛ بہت ہی مہم مطلب ہے ، یہ حضرت کی علمی موجوں کو بیان کرتا ہے ، یعنی آپ کی جو بھی حاجت ہو اور جو بھی مشکل ہو ،فرق نہیں وہ معنوی ہو یا مادی ،جو بھی ہو اس ذکر کو پڑھا کریں«يَفْعَلُ اللَّهُ ما يَشاءُ».
میں جس مطلب کو یہاں عرض کرتا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہماری بہت ساری مشکلات کی اصل وجہ توحید کے نہ ہونے کی طرف پلٹی ہے ، یعنی حقیقت میں ہم مشرک ہیں اگرچہ ظاہر میں ہم «أنا مِن المُسلِمِين». کہتے ہیں ، فرق نہیں وہ مشکلات مریض ہونا ہو یا مادی مشکلات اور ان میں سے سب سے اہم معنوی مشکلات ہیں ۔
اگر انسان مشکل کے پیش آتے ہیں خدا سے یہ التجا کریں کہ خدایا میری یہ مشکل ہے اسے حل کرو، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مشکل حل نہیں ہوگا ، لیکن دعا کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے ،دعا کرنے کی آداب اور اس کی حقایق میں سے ایک یہ ہے کہ انسان خود توحید کے درجہ پرپہنچ جائے اوروہ دعا کریں ، وہ اپنی جگہ پر یہ یقین کریں کہ رحمانیت ،رحیمیت اورربویت خدا کے ہاتھ میں ہے ، تا کہ بعد میں بھی کوئی دعا اورکوئی حاجت ہوتوخداوندمتعالی اس کی حاجت کو پورا کریں ۔
وصلّي الله علي محمّد و آله الطّاهرين
نظری ثبت نشده است .