درس بعد

دینی معارف میں حسد کی مذمت

دینی معارف میں حسد کی مذمت

درس بعد

موضوع: اخلاقی دروس


تاریخ جلسه : ٨٨/٧/١٥


شماره جلسه : ۱

PDF درس صوت درس
چکیده درس
دیگر جلسات
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين


انسا ن کو اپنی زندگی میں جن مہم مسائل کے بارے میں متوجہ رہنا چاہئے ان میں سے ایک حسادت ہے ۔
حسد ایک ایسی صفت ہے کہ جب ہم اس بارےمیں روایات کو ملاحظہ کرتے ہیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ بدترین اخلاقی صفات میں سے ایک ہے ۔
امیر المومنین (علیہ السلام ) سے وارد روایات میں یہ تعبیر ہے کہ یہ شر الامراض یعنی نفسانی بدترین امراض میں سے ایک ہے ، یا دوسرے بعض تعابیر میں آپ( ع) سے نقل ہے کہ فرماتے ہیں : الحسد لا شفاء له،:حسد ایک ایسا مرض ہے جس کا  کوئی علاج نہیں۔
حسادت کا معنی یہ ہے کہ انسان اگر کسی دوسرے شخص میں کوئی نعمت دیکھے تو یہ آرزو کرے کہ اس کا یہ نعمت ختم ہو جائے ، اس کی تمام خواہش یہ ہو کہ اس شخص کی یہ نعمت زائل ہو جائے ، ہمارے پاس ایک حسد ہے اور ایک غبطہ۔
غبطہ حسد کا برعکس ہے ، یہ بہت اچھا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ انسان دیکھتا ہے  خدانے کسی کو کوئی نعمت عطا کی ہے تو وہ یہ بولتا ہے کہ انشاء اللہ خدا مجھے بھی یہ نعمت عطا کرے گا اسے غبطہ کہا جاتا ہے ، لیکن حسد کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی دوسرے سے اس نعمت کف ختم ہونے کا آرزو کرے ۔
حسد ان بری صفات میں سے ایک ہے کہ جو ہر قسم کے انسانوں میں پائی جاتی ہے ، اور یہ ہر عمر کے انسان میں ہوتی ہے ، مرد ، عورت، جوان، بوڑھے، جاہل ، عالم۔۔۔۔سب میں یہ صفت پائی جاتی ہے ؛ لیکن اس کا سب سے اعلی درجہ علماء میں پائی جاتی ہے ، سب سے زیادہ یہ صفت علماء میں پائی جاتی ہے ، گویاعلم میں ہی یہ چیز پائي جاتی ہے کہ انسان کو حاسد میں پھنسا دیتا ہے ، اس بارے میں ایک واضح مثال بیان کروں ؛ کبھی انسان یہ کہتا ہے کہ فلان شخص سالم ہے اور میں سالم نہیں ہوں، اس کا دل چاہتا ہے کہ دوسرا بھی مریض ہو جائے ، واقعا یہ خود اپنی جگہ ایک مصیبت ہے ، یہ آرزر کرتا ہے کہ دوسرا بھی مریض ہو جائے ، یا کسی انسان کے پاس مال و دولت ہے انسان یہ آرزو کرے کہ وہ وقت کب آئے گا کہ یہ شخص بھی فقیر ہو جائے کہ میں اس کے فقیر ہونے کو دیکھ لوں۔
کوئي شخص عزت دار ہے ، دوسرا کوئی کہتا کہ کب میں اس کی ذلت کو دیکھ سکوں گا؟ کب اس سے یہ نعمت زائل ہو گی؟ کسی کے پاس مقام و منصب ہے دوسرا اس کے نیچے کام کرنے والا ہے ، کوئی خوبصورت ہے دوسرا نہیں ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ حسادت خدا وند متعال کی نعمتوں کے تعداد کے مطابق ہے ، کسی کا حافظہ بہت اچھا ہے ، کسی کا استعداد اچھا ہے ، کوئی بہت زیادہ طاقتور ہے ، کوئی بہت اچھا خطابت کرتا ہے ، دوسرے اس سے حسادت کرتا ہے۔
علماء کے بارے میں روایات میں نقل ہے کہ قیامت کے دن حساب و کتاب سے پہلے جہنم جانے والوں میں سے ایک گروپ علماء ہیں ، وہ علماء جو حسود ہوتے ہیں ؛ «العلماء إذا حسدوا»؛
یہاں پر ایک تحلیل ہے کہ شیطان کے مہمترین راستے تین ہیں ؛ ایک شہوت کا راستہ ہے ، ایک غضب ہے اور تیسرا ہوی و ہوس ہے ۔
اس تحلیل کے بارے میں غور کریں ، دیکھیں حسد کن برے اوصاف کا نتیجہ ہے ! علماء اخلاق قوہ شہوت کو قوہ بھیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں ، یعنی انسان اور حیوان قوہ شہوت میں مشترک ہیں ، اور قوہ غضب سے قوہ سبعیہ سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ بھی انسان اور حیوان کے درمیان مشترک ہیں ، لیکن جو چیز انسان میں موجود ہے اور حیوان میں نہیں ہے وہ ہوا و ہوس ہے ، شیطانی آرزوئیں، انسان آرزو کرتا ہے کہ کوئی مقام پیدا کرے، آرزو پیدا کرتا ہےکہ مال و دولت ملے، اس کی خواہش ہوتی ہےکہ ایسا و یسا گھر اس کے پاس ہو ،گھر کے سامان  ماڈرن ہوں، یہ چیزیں انسان میں موجود ہوتی ہیں۔
ایک اہم مطلب یہ ہے کہ ان تینوں قوات کے درمیان ، قوہ غضب ،قوہ شہوت سے بہت زیادہ خطر ناک ہے ، یعنی جتنا قوہ غضب انسان کو سقوط کی طرف لے جاتا ہے ، قوہ شہوت اسے سقوط کی طرف نہیں لے جاتا!اور قوہ ہوا و ہوس ، قوہ غضب سے خطرناک ہے ، ایک اور تعبیر یہ ہےکہ قوہ شہوانیہ خود انسان پر ظلم ہے ، قوہ غضبیہ دوسرے پر ظلم ہے ، اور ہوا و ہوس خدا وند تبارک و تعالی پر ظلم ہے ، جو انسان ہوی وہوس میں گرفتار ہو اس میں شرک ہوتاہے ، وہ خداوندمتعال کے بارے میں بہت بڑا ظالم ہے ۔
اس بارے میں روایات بھی ہیں  (كافي جلد دوم، صفحه 331) فرماتے ہیں:«إنّ الظلم ثلاثة: ظلم لا يغفر و ظلم لا يترك وظلم عسی الله أن يتركه»: ایک ظلم ایسا کہ خدا وند کبھی بھی اسے معاف نہیں کرتا یہ وہی شرک ہے ؛ ایک ظلم ایسا ہے کہ وہ اس ظلم سے نجات نہیں پاتا یہ وہ ظلم ہے جسے انسان دوسرے پر کرتا ہے ، انسان اس ظلم سے رہائی نہیں پاتا جب تک جس کے حق میں یہ ظلم کیا ہے اسے راضی نہ کرے ، ایک ظلم ایسا ہے کہ عسی الله أن يتركه ؛ شاید خدا اسے معاف کر دے جیسے شہوانی مسائل کہ امید ہے خدا اسے معاف کر دے۔
علماء اخلاق ایک اور مطلب بیان کرتے ہیں کہ قوہ شہوانی کا میوہ لالچ اور کنجوسی ہے ، جس انسان یہ دیکھانا چاہتا ہےکہ آیا واقعا اس کا قوہ شہوی قوی ہے یا نہیں تو وہ یہ دیکھیں کہ کیا وہ خود ، کھانے پینے کی چیزوں میں لالچی ہے یا نہیں ، مال کے بارے میں لالچی ہے یا نہیں ، جنسی لذات ، اور مقام و منصب کے بارے میں لالچی ہے یا نہیں؟لالچ اور کنجوسی شہوت کے دو میوہ ہیں ،عجب اور تکبر غضب کا دو میوہ ہے ؛
جس شخص کا قوہ غضبیہ قوی ہو ، وہ انسان متکبر اور خود پسند ہوتا ہے ، وہ کسی کے احترام کا قائل نہیں ؛ عام طور پر جو لوگ زیادہ غصہ والا اور لڑاکو ہوتے ہیں ،وہ عجب اور متکبر ہوتے ہیں ، یہ لوگ کسی کے عزت و احترام کا قائل نہیں ہوتے ، بلکہ یہی کہتے ہیں کہ جو کچھ ہے میں خو د ہوں اور دہی بات صحیح ہے جو میں بتاتا ہوں ۔
ہوی و ہوس کا نتیجہ اور پھل ، کفر اور بدعت ہے ؛ اگر انسان ہوی و ہوس میں گرفتار ہو جائے اور اس پر کنٹرول نہ کرے ،اس کی انتہاء کفر پر ہوجاتی ہے ، خدا کی آیات کو جھٹلائے گا، اور بدعت ایجاد کرے گا۔
حسد کیا ہے اسے سمجھنے کے لئے یہ بولا جائے کہ حسد ان چھ صفات کا نتیجہ ہے ؛ یعنی اگر کوئی شخص لالچ اور کنجوس ہو ، عجب اور متکبر ہو، کفر اور بدعت  بھی ہو، ان چیزوں سے جو چیز نکل آتی ہے وہ حسد ہے۔
دیکھیں حسد کتنی بری صفت ہے ؟ اسی لئے روایات میں ہے کہ حسد  شرّ الامراض و أخبث الرذائل ہے، ایک بیان یہ ہے کہ حسد ان اوصاف سے متولد ہوتا ہے ، لالچی انسان حسود ہوتا ہے ، کنجوس انسان حسود ہوتا ہے ۔
جو انسان لالچی نہیں ہے وہ حسادت بھی نہیں کرتا ہے ، جو انسان لالچی اور حریص ہوتا ہے ، اس کا دل یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کے چیزیں بھی اسے مل جائے ، لیکن جو انسان لالچی نہیں ہے ، وہ اسی پر قانع ہے جسے اسے خدا نے عطا کیا ہے ، یہ انسان کسی سے حسد نہیں کرتا، لیکن جس انسان کے پاس عجب ہو وہ حسود ہے وہ صرف اور صرف خود کو پسند کرتا ہے ، اگر یہ دیکھیں کہ کوئی اس سے زیادہ ترقی کر رہا ہے وہ اسے تحمل نہیں کر سکتا۔
شرک اور کفر بھی اسی طرح ہے ؛ یہ چیزیں حسد کا سبب ہے ، یہ صفات بہت ہی بر ے صفات ہیں ،ہم سورہ فلق میں جو پڑھتے ہیں ؛(وَ مِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ) ؛ یہ اس لئے ہے کہ حسد سے بری کوئی چیز نہیں ہے ، یہ واقعہ ذکر ہے کہ : ابليس أتی باب فرعون وقرع الباب ؛شیطان فرعون کے گھر پر آیا اور دروازہ کی گھنٹی بجائی ۔
فرعون نے کہا کون ہو؟ قال ابليس لو كنت إلهاً لما جهلتني ؛ تم خدا ہونے کا دعویدار ہو ، تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا ہےکہ دروازہ کے پیچھے کون ہے ؟ فلما دخل ؛ جب وہ اندر داخل ہوا ، قال فرعون: أتعرف في الارض شراً مني ومنك؛ تو فرعون نے شیطان سے ایک سوال کیا ، کیا تمہیں کسی ایسےموجود کو جانتے ہو جو تم اور مجھ سے بھی زیادہ بدتر ہو ؟ شیطان نے کہا : جی ہاں ! فرعون نے کہا : کون ہے ؛شیطان نے کہا: الحاسد؛ وہ شخص جو حسد کرتا ہے ۔
کچھ دوسری روایات میں ہے کہ بنی آدم میں حسد سے بڑھ کر کوئی بری صفت نہیں ہے ، ابھی ایک اخلاقی مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ایک اور مطلب بیان کروں گا کہ کبھی فقہی لحاظ سے سوال ہوتا ہےکہ حسد کا کیا حکم ہے ؟
مرحوم صاحب جواہر نےجواہر الکلام کی جلد 41 صفحہ 52 پر لکھتا ہے :یہ خود اپنی جگہ گنا ہے کہ انسان اپنے نفس میں یہ آرزو کرے کہ کسی اور کے پاس جو نعمت ہو وہ ختم ہو جائے ، کوئی اچھا ڈاکٹر ہے ، یا کسی کا حافظہ بہت اچھا ہے ، وہ اپنے نفس میں یہ آرزو کرے کہ کب اس کا حافظہ زائل ہو گا ؟ کوئی اچھا خطیب ہے ، بہت اچھا تقریر کرتاہے ، تو وہ اپنے نفس کے اندر یہی آرزو کرتا ہے کہ کب اس کا زبان بند ہو جائے ، کب ہو گا کہ یہ بات بھی نہ کر سکے ؟!
مرحوم صاحب جواہر نے صراحتا بیان کیا ہے کہ یہ چیز جب تک نفس کے اندر ہے وہ بھی گناہ ہے اگرچہ افعال کے ذریعہ ظاہر بھی نہ ہوا ہو ، اور اگر اظہار ہو جائے تو اس شخص کی عدالت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔
مرحوم شہید ثانی نے مسالک میں لکھاہے : اگر یہ اظہار ہو جائے تو یقینا ایک حرام فعل ہے ، بس یہی کہہ دے کہ کب فلان شخص مریض ہو گا ، یا فقیر ہو گا  اور اس کی عزت ختم ہو جائے گی، اس کی نعمت کی زائل ہونے کی یہی تمنا کرنا حسد کی علامت ہے ، اور اگر وہ انسان خود دوسرے کی نعمت کو ختم کرنا شروع کر دے تو یہ اس کی بات ہی دوسری ہے ۔
کوئی انسان عزت والا ہے ، دوسرا اس کے درپے ہو کہ اس کی عزت کو ختم کر دے ! اس سے زیادہ گناہ کا کام یہ ہے کہ انسان کسی گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہو؛ مثلا علماء کو بے اعتبار کرنے کے درپے ہو ، کہ افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرہ میں یہ چیزیں پائی جاتی ہے ، یہ تو حسد کی بری صفت سے بھی مقایسہ نہیں کرسکتا ، چونکہ واقعا یہ قابل توصیف نہیں ہے ، کچھ لوگ کسی بھی طریقہ سے  معاشرہ میں علماء کو بدنام کرنے  کی کوشش کرتے ہیں ، نظام اسلامی کو بدنام کرنے کی کوشش میں ہے ، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جو کسی خاص عنوان میں داخل نہیں ہے ،ہمیں اپنے نفس کی اصلاح کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے ۔
بہر حال انسان جب انسان درس اور کام سے فارغ ہوتا ہے ، تو رات کی تاریکی میں توفیق پیدا کرے  خدا کے محضر میں خود کا محاکمہ کرے ،خود کو اپنے جیسے دوسرے افراد کو دیکھیں ، کہ کہیں ہمارے اندر بھی اپنے دوستوں اور  جاننے والوں کے بارے میں ایسی غلط فکر تو نہیں ہے ؟ کیا ہمارے اندر بھی یہ آرزو تو نہیں ہے کہ کب فلان شخص کی عزت ختم ہو جائے گی ؟ کب فلانی مریض ہو جائے کہ میں اس کی جگہ پر بیٹھ جاؤں؟! یہ سب حسادت ہے اور ہر انسان  اس مرض میں کم و بیش گرفتار ہے
خداوند ہم سب کو انشاء اللہ ان بری صفات سے محفوظ رکھے۔

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .