بسم الله الرحمن
الرحيم
الحمد
لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
قبض روح ایک فرشتہ کے ذریعہ یا چند فرشتوں سے
ہرانسان کے قبض روح کا ذمہ دار صرف ایک فرشتہ ہے یا ممکن ہے کہ ایک شخص کے قبضہ
روح کا ذمہ دار چند فرشتے ہوں ؟بعض آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ممکن ہے بعض
موارد میں قبض روح کے ذمہ دار چند فرشتے ہوں "حَتَّى
إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا" اس آیت کریمہ کے
ظاہر سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ بعض موارد میں قبض روح کرنے والے کئی فرشتے ہیں
،''توفتہ''میں ضمیر''ہ''
احدکم کی طرف پلٹ رہی ہے یعنی ہمارے بھیجے گئے افراد اس کے قبض روح کرنے کے
مسؤل ہیں ، پس ان آیات سے جو چیز استفادہ ہوتا ہے وہ ہمارے ذہنوں میں موجود اس
بات کے برخلاف ہے کہ قبض روح کرنے والے چند فرشتے ہیں اگرچہ وہ بعض موارد میں
ہی کیوں نہ ہوں یہ ضروری نہیں ہے کہ سب جگہوں پر کئی فرشتے ہوں بلکہ بعض موارد
میں ایسا ہے ۔
رسل یعنی فرشتے ، آیت میں ہے :" وَ هُوَ
الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَة"خدا وند
متعالی آپ پر کچھ فرشتے نازل کرتے ہیں وہ آپ کے اعمال کو لکھنے والے ہیں "حَتَّى
إِذا جاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنا" توفتہ'' میں ضمیر
''احد '' کی طرف پلٹ رہی ہے ''رسل
'' سے مراد وہی فرشتے ہیں جو انسان کے قبض روح کرنے والے ہیں ،یہا پر خدا نے ''توفتہ
رسلنا '' نہیں فرمایا ہے ،کلمہ ''رسول ''نہیں لایا ہے ،بلکہ رسل (صیغہ جمع کے ساتھ ) ذکر کیا ہے ،اور
اس کے علاوہ کچھ اورآیات بھی ہیں جن میں جمع ذکر ہوا ہے کہ ہم آگے جاکربیان
کریں گے کہ کفاراورمشرکین کے قبض روح کرنے کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ "يَضْرِبُونَ
وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُم " فرشتے جب کافروں کی قبض روح کرتے ہیں
تواسی وقت ان عذاب دینا شروع کرتے ہیں،وہاں پرایک فرشتہ نہیں مارتا بلکہ ''یضربون
وجوہہم و ادبارہم '' کہ یہاں پر''وجوہ
''اور''ادبار''سے کیا مراد ہے ہم
آگے جا کر بیان کریں گے ،پس آیات کریمہ سے یہی استفاد ہ ہوتا ہے کہ ضروری نہیں
کہ قبض روح کے لئے ایک فرشتہ ہو بلکہ بہت سارے فرشتے بھی ہو سکتے ہیں ۔
ملک الموت کے بارے
میں کچھ گفتگو
مناسب ہے ہم یہاں ملک الموت کے بارے میں کچھ گفتگو کریں ملک الموت کے بارے میں
کچھ روایات نقل ہوئی ہیں ،البتہ ایسا نہیں ہے کہ خود ملک الموت کے لئے کچھ
خصوصیت ہوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض روایات میں ملک الموت جنس کے طور پر
ذکر ہوا ہے نہ کی کسی کے نام کے طور پر ،یعنی جو فرشتہ بھی قبض روح کرے یہ
خصوصیات جو ان روایات میں ہیں ان پر صدق کرتا ہے ۔
روایت اول
کتاب جامع الاخبار میں ہے«قال
ابراهيم الخليل لملك الموت» ابراہیم خلیل نے ملک الموت سے فرمایا «هل تستطيع ان تريني صورتك التي تقبض فيها روح الفاجر» جس چہرہ سے فاجر
اور فاسق انسان کی قبض روح کرتے ہو کیا اسے مجھے دیکھا سکتے ہو ! ملک الموت
نے کہا: لَا تُطِيقُ ذَلِكَ
آپ کے پاس طاقت نہیں ہے کہ اسے دیکھ سکے قَالَ بَلَى حضرت ابراہیم نے
اصرار کیا کہ میں دیکھ سکتا ہوں ،ملک الموت نے کہا : تھوڑی دیر کے لئے اپنے
چہرہ کو دوسری طرف موڑ لواوردوبارہ مجھے دیکھو''قَالَ فَأَعْرِضْ عَنِّي
فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ الْتَفَتَ ''جب دوبارہ اس کی طرف دیکھا،تو دیکھا
:'' فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ أَسْوَدَ
قَائِمِ الشَّعْرِ مُنْتِنِ الرِّيحِ أَسْوَدِ الثِّيَابِ''سیاہ
چہرہ ،بال بکھرے ہوئے ،بدبودار،'' يَخْرُجُ مِنْ فِيهِ وَ مَنَاخِرِهِ لَهِيبُ النَّارِ وَ الدُّخَانُ''
اس کے بدن کے تمام سوراخوں سے آگ اور دھوان نکل رہا تھا جب یہ دیکھا تو
حضرت ابراہیم بے ہوش ہوگئے '' فَغُشِيَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ “اس کے بعد ہوش میں آئے تو کہا:''ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ لَوْ لَمْ يَلْقَ الْفَاجِرُ عِنْدَ مَوْتِهِ إِلَّا
صُورَةَ وَجْهِكَ لَكَانَ حَسْبَهُ '' اگر فاجر انسان کوئی بھی عذاب
نہ دیکھیں صرف مرتے وقت تمہاری یہی شکل دیکھیں تو اس کی عذاب کے لئے یہی
کافی ہے ۔
اس روایت سے دو تین مطالب حاصل ہوتے ہیں ؛ پہلا مطلب :حضرت ابراہیم نے ملک
الموت سے جو بات کی وہ ایک معین اور مشخص فرشتہ نہیں ہے ، بلکہ جنس ملک
الموت ہے جو ارواح کے قبض کرتے وقت ہر ایک سے مناسب ملک ہے اگر مومن روح ہے
رو اسی کیفیت سے اور اگر کافر روح ہے تو دوسری حالت میں ۔
کل عرض ہوا کہ ملک الموت نماز کے اوقات میں آتے ہیں اور لوگوں سے ملتے ہیں ۔
دوسرا مطلب:
واقعاً یہ روایات انسان کو ہلا کر رہنے والی روایات ہیں ؛ کہ اشرف ترین
انسان کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر پست ترین انسان تک
ان کے مراتب کے لحاظ سے ملک الموت کا چہرہ بھی مختلف ہوتا ہے ،یعنی جس وقت
انسان کا قبض روح ہورہا ہوتا ہے اور ملک الموت کے چہرہ کودیکھتا ہے اسی وقت
انسان کو اپنی آخرت کے بارے میں سب کچھ نمایاں ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ
برزخ اور قیامت میں کیا ہونے والا ہے ۔
دوسری روایت
ایک روایت میں ابی سلمہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتا ہے :''حَضَرَ
رَجُلًا الْمَوْتُ '' کسی شخص کا احتضار کا وقت آپہنچا ،اس وقت
پیغمبر اکرم سے عرض کیے :یا رسول اللہ ''
إِنَّ فُلَاناً قَدْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَنَهَضَ رَسُولُ اللَّهِ
''پیغمبر اکرم اس شخص کی طرف گئے ،ان کے ساتھ اصحاب بھی تھے ،جب اس شخص کے
پاس پہنچے تو پیغمبر اکرم نے ملک الموت کو دیکھا اورفرمایا''يَا
مَلَكَ الْمَوْتِ كُفَّ عَنِ الرَّجُلِ '' رکو ابھی اس شخص کا قبض
روح مت کرو تا کہ میں اس سے ایک سوال پوچھوں ''
فَأَفَاقَ الرَّجُلُ'' وہ
شخص جان کنی کی حالت میں تھا کہ کوئی بات نہیں کرسکتا تھا ،جب ملک الموت
وہاں سے تھوڑا سا ہٹ گیا تو پیغمبر اکرم نے اس شخص سے فرمایا 'فَقَالَ
النَّبِيُّ ص مَا رَأَيْتَ'' تم نے کیا دیکھا؟عرض کیا ''قَالَ رَأَيْتُ بَيَاضاً كَثِيراً وَ سَوَاداً كَثِيراً''بہت
سارے نور اور روشنائی کو دیکھتا ہوں اور ساتھ میں تاریکی اور بہت سارے
اندھیرا دیکھتا ہوں ،پیغمبر اکرم نے فرمایا ''فَقَالَ
فَأَيُّهُمَا كَانَ أَقْرَبَ إِلَيْكَ''اس نور اور تاریکی میں سے
کونسا تم سے زیادہ نزدیک تھا؟''فَقَالَ
السَّوَادُ ''وہ تاریکی مجھے سے نزدیک تھا،پیغمبر اکرم نے اس شخص سے
فرمایا:یہ ذکر جو میں کہہ رہا ہوں اسے تم تکرار کرو''اللَّهُمَّ
اغْفِرْ لِيَ الْكَثِيرَ مِنْ مَعَاصِيكَ وَ اقْبَلْ مِنِّي الْيَسِيرَ
مِنْ طَاعَتِكَ''خدایا میرے زیادہ گناہوں کو معاف کیجئے اور بہت کم
عبادات کو قبول فرما،اس شخص نے اس دعا کو پڑھا ''
فَقَالَهُ '' اس کے بعد دوبارہ بے ہوش ہوگیا ''ثُمَّ
أُغْمِيَ عَلَيْهِ '' پیغمبر اکرم نے دوبارہ ملک الموت سے فرمایا
:ابھی رکو تا کہ میںدوبارہ اس سے سوال کروں''فَقَالَ
يَا مَلَكَ الْمَوْتِ خَفِّفْ عَنْهُ سَاعَةً حَتَّى أَسْأَلَهُ
''وہ شخص دوبارہ ہوش میں آیا ،تو پیغمبر اکرم نے اس سے فرمایا: ابھی کیا
دیکھ رہے ہو '' فَأَفَاقَ
الرَّجُلُ فَقَالَ مَا رَأَيْتَ ''اس نے کہا وہی بہت زیادہ نور اور
تاریکی ہے ''قَالَ رَأَيْتُ
بَيَاضاً كَثِيراً وَ سَوَاداً كَثِيراً''کونسا تم سے زیادہ نزدیک
ہے ؟اس دفعہ وہ نور مجھے سے زیادہ نزدیک ہوا ہے ،یعنی جس ذکر کو پیغمبر
اکرم نے سکھایا تھا اس نے اپنا اثر کیا،اس وقت پیغمبراکرم نے فرمایا:''فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص غَفَرَ اللَّهُ لِصَاحِبِكُمْ
''امام صادق اس واقعہ کوبیان کرنے کے بعد فرماتا ہے ''قَالَ
فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع إِذَا حَضَرْتُمْ مَيِّتاً فَقُولُوا لَهُ
هَذَا الْكَلَامَ لِيَقُولَهُ ''جب بھی کسی محتضر کے پاس پہنچ جاؤ
تو اس ذکر کو پڑھا کرو ،اور خود اسے بھی اسے تکرار کرنے کی تلقین کرو ۔
تیسری روایت
''إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ اشْتَكَى
عَيْنَهُ '' امیر المؤمنین علیہ السلام کے آنکھوں میں کچھ تکلیف
ہوئی تو ''فَعَادَهُ النَّبِيُّ ص''
پیغمبر اکرم ان کے عیادت کے لئے تشریف لائے ''فَإِذَا
هُوَ يَصِيحُ ''امیرالمومنیں اتنی شجاعت اورصبر کے باوجود اس دردسے
آواز نکال رہے تھے ''فَقَالَ لَهُ
النَّبِيُّ ص ''پیغمبراکرم نے فرمایا''أَجَزَعاً
أَمْ وَجَعاً ''درد کی وجہ سے آہ و فغان کر رہے ہویاشکایت کررہے
ہو؟امیر المؤمنین نے عرض کیا :یا رسول اللہ بہت زیادہ درد ہے ''
فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ
مَا وَجِعْتُ وَجَعاً قَطُّ أَشَدَّ مِنْهُ ''میں اپنی زندگی میں اس
سے زیادہ خطرناک درد کبھی احساس نہیں کیا تھا ،جسمانی درد، پیغمبر اکرم نے
فرمایا''يَا عَلِيُّ إِنَّ مَلَكَ
الْمَوْتِ إِذَا نَزَلَ لِقَبْضِ رُوحِ الْكَافِرِ نَزَلَ مَعَهُ سَفُّودٌ
مِنْ نَارٍ فَنَزَعَ رُوحَهُ بِهِ فَتَصِيحُ جَهَنَّمُ ''اے علی !جب
ملک الموت کافر کا قبض روح کرتا ہے ،تو گرم گرم لوہے کی تار لے آتے ہیں اور
س کے ذریعہ کافر کی قبض روح کرتا ہے ،اس وقت کافر اتنا زیادہ چیخ اٹھتا ہے
کہ اس کی چیخ و پکار سے جہنم کی چیخ بھی نکل جاتی ہے ۔
امیر المؤمنین کو بہت زیادہ درد کی وجہ سے بستر پر تشریف فرماتھے پیغمبر
اکرم کی یہ بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :''فَاسْتَوَى
عَلِيٌّ ع جَالِساً فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعِدْ عَلَيَّ حَدِيثَكَ
فَقَدْ أَنْسَانِي وَجَعِي مَا قُلْتَ'' کیا عجیب حدیث ہے اسے
دوبارہ میرے لیے تکرار فرمائیے :'' ثُمَّ قَالَ هَلْ يُصِيبُ ذَلِكَ أَحَداً مِنْ أُمَّتِكَ''عرض کیا :
کیا یہ صرف کافروں کے لئے ہے یا نہ ؟ کیا آپ کی امت میں سے کوئی بھی اس بلا
میں گرفتا ر ہوں گے ،کیا ان میں سے بھی کسی کا اس طرح قبض روح ہو گا؟''
قَالَ نَعَمْ ''پیغمبر اکرم
نے فرمایا :ہاں ! میری امت میں تین گروہ ایسے ہیں جن کی قبض روح بہت ہی
مشکل ہے '' حَاكِمٌ جَائِرٌ''
ایک ظالم حاکم ،اگر کوئی کسی ملک کا حکمران ہو اور ظالم ہو،اس کے لئے پہلا
اثر اس کے قبض روح میں ہے ،دوسرا گروہ وہ ہیں جو''وَآكِلُ مَالِ الْيَتِيمِ ظُلْماً''یتیم کے مال کو ظلم
اور دشمنی سے کھائے ،تیسرا گروہ وہ ہے"
وَشَاهِدُ زُورٍ"جو عدالت میں جھوٹا گواہی دے ،افسو س کے
ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ آج کل کوٹ کے باہر کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کا کام ہی
یہی ہے ،ان سے پوچھتے ہیں کہ گواہی دو گے؟ اور ان کو قاضی کے پاس لے جاتے
ہیں تا کہ گواہی دے دیں اور اس کے حق میں فیصلہ سنائیں ،اس طرح سے جھوٹا
گواہی دینے کا اثر اس کے قبض روح کے وقت ظاہر ہوتا ہے ۔
پیغمبر اکرم نے اس روایت میں تین گروہ کو بیان فرمایا ہے ؛ لیکن کیا ہم ان
تین گروہ سے ایک قدر جامع حاصل کر سکتے ہیں ؟ان تینوں کا اجتماعی پہلو ظلم
ہے ،حاکم جائر یعنی ظالم حاکم ، یتیم کے مال کو ظلم سے کھانا ، اور تیسرا
جھوٹا گواہی دینا کہ اس نے بھی ظلم کیا ہے ! کیا ہم اس سے یہ نتیجہ لے سکتے
ہیں کہ جو بھی ظلم کرے اسے قبض روح کے وقت مشکل ہوتا ہے ،ہماری نظر کے
مطابق ہم یہ نتیجہ نہیں لے سکتے ،اگرچہ دوسری جگہوں ایک ہی موضوع کے چند
روایات کو جمع کر کے اسی بارے میں کوئی نتیجہ لے سکتے ہیں ،لیکن ہم یہاں یہ
نہیں کر سکتے ،کیونکہ ظلم کے مراتب اور درجے ہیں ،جائر حاکم جو ظلم کرتا ہے
،مثلا ً خود ہمارے زمانے میں ہم سوچتے تھے کہ صدام سے زیادہ ظالم حاکم کوئی
نہیں ہوگا ،لیکن آپ نے دیکھا کہ لیبیا میں کتنے انسانوں کا قتل عام کر دیا
،یمن میں کتنے لوگوں کو مارے ،بحرین میں کتنے لوگوں کو ہر روز مار رہے ہیں
!حاکم جائر جو ظلم کرتا ہے وہ قابل قیاس ہی نہیں ہے ہم حاکم جائر کے ظلم کو
اس آدمی کے ظلم کے برابر نہیں کہہ سکتے جو کسی دوسرے پر تھپڑ مارتا ہے ،معلوم
ہوتا ہے کہ ایک بہت ہی اعلی درجہ کا ظلم ہے ،حاکم جائر ،یتیم کے مال کو
کھانا اور جھوٹا گواہی دینا اسی درجہ کا ظلم ہے ، ہم یہاں پر یہ بتا سکتے
ہیں کہ انسان ظالم اگرچہ نچلے سطح کے ظالم ہی ہوں قبض روح کے وقت مشکل پیدا
کرتا ہے ،اگر کسی نے کسی پر ظلم کیا ہو اور وہ ظلم ان ظلموں کی طرح نہ ہوں
لیکن قبض روح کے وقت اس کی حالت بھی اچھی نہیں ہوتی ۔
چوتہی روایت
سکونی امام صادق سے نقل کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا:''عَنِ
السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ إِذَا
حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْثَقَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ وَ لَوْ لَا ذَلِكَ مَا
اسْتَقَرَّ ''جب انسان کا روح اس کے بدن سے نکل رہا ہوتا ہے تو اس
کی ایک حالت یہ ہے کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرسکتا،اس روایت میں ہے کہ
ملک الموت کا ایک کام یہی ہے کہ وہ قبض روح ہونے والے انسان کو باندھ لیتا
ہے ،لیکن یہ باندھنا نہ کہ رسی سے ہے،ظاہراً کوئی رسی نہیں ہے ،بلکہ اس کے
ساتھ کوئی ایسا کام کرتا ہے جیسے اسے باندھا ہوا ہو «إن الميّت إذا حضره الموت أوثقه ملك الموت ولو لا ذلك ما استقر»اگرباندھا
هوا نہ ہوتواسے سکون سے بیٹھنا ممکن ہی نہیں،بلکہ وہ اپنے آپ کو اس طرف اس
طرف مارتے رہیں گے ۔
اسلامی جنگوں میں سے کسی جنگ میں ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے مشرکین میں سے
کسی پرحملہ کیااوراسے مارنا چاہتا تھا لیکن میرے تلواراس پر وارہونے سے
پہلے وہ گھوڑے سے گر گیا،روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا : تم سے
پہلے ملک الموت نے اس کی قبض روح کرلی،ان تمام موارد کے بارے میں ہم یہی
کہہ سکتے ہیں اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہم آگے بیان کریں گے ۔
یہ ہے قبض روح کی شدت ،کہ واقعاً یہ ایک ایسی چیز ہے کہ انسان کوہرروز اس
بارے میں سوچنا چاہئے،ہمارے بزرگوں کی سیرت یہ تھی کہ اپنے لیے کفن مہیا
کرتے تھے اورہردن اسے دیکھتے تھے،روایت میں بھی ہے کہ '' إِذَا أَعَدَّ
الرَّجُلُ كَفَنَهُ كَانَ مَأْجُوراً كُلَّمَا نَظَرَ إِلَيْهِ'' اگر
انسان اپنی کفن کو تیار کریں اوراسے دیکھے توجب بھی اسے دیکھے اسے ثواب ملے
گا ۔
قبض روح کے آسان ہونے کا ایک سبب قرآن ہے ،کہ اس بارے میں امام صادق(ع)
فرماتے ہیں :''قَالَ: لَا
تَمَلُّوا مِنْ قِرَاءَةِ- إِذٰا
زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزٰالَهٰا'' سورہ زلزال پڑھنے سے
تھکنا نہیں جتنا اسے پڑھ سکتے ہوپڑھ لو''
فَإِنَّهُ مَنْ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ
بِهَا فِي نَوَافِلِهِ لَمْ يُصِبْهُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِزَلْزَلَةٍ
أَبَداً ''جواسے پڑھے وہ زلزلہ کی وجہ نہیں مر تا ''وَلَمْ
يَمُتْ بِهَا وَ لَا بِصَاعِقَةٍ ''گرچ وچمک کی وجہ سے نہیں مرتا ''وَ لَا بِآفَةٍ مِنْ آفَاتِ الدُّنْيَا حَتَّى يَمُوتَ
''دنیا کی آفتوں اور بلاؤں کی وجہ سے وہ نہیں مرتا ،اور جب اپنی طبیعی موت
مرتا ہے تو ''وَ ِذَا مَاتَ نَزَلَ
عَلَيْهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ فَيَقْعُدُ عِنْدَ رَأْسِهِ
''ایک فرشتہ اس کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے ''فَيَقُولُ
يَا مَلَكَ الْمَوْتِ ارْفُقْ بِوَلِيِّ اللَّهِ''وہ فرشتہ ملک
الموت سے شفارش کرتا ہے کہ جب تم اس کی روح کو بدن سے جداکرنا چاہو تو بہت
ہی آسانی اورمدارا کے ساتھ پیش آنا''فَإِنَّهُ
كَانَ كَثِيراً مَا يَذْكُرُنِي وَ يَذْكُرُ تِلَاوَةَ هَذِهِ السُّورَةِ''کیونکہ
یہ شخص ہمیشہ مجھے یاد کرتا تھا اورسورہ زلزال کو زیادہ پڑھا کرتا تھا،اس
کے بعد یہ سورہ خود ایک فرشتہ کی شکل میں آجاتا ہے ''وَتَقُولُ لَهُ السُّورَةُ مِثْلَ ذَلِكَ ''اور یہ سورہ
بھی ملک الموت کو اسی طرح کی بات کرتا ہے اس وقت ملک الموت کهتاہے:''وَيَقُولُ
مَلَكُ الْمَوْتِ قَدْ أَمَرَنِي رَبِّي أَنْ أَسْمَعَ لَهُ وَأُطِيعَ
وَلَاأُخْرِجَ رُوحَهُ حَتَّى يَأْمُرَنِي بِذَلِكَ فَإِذَاأَمَرَنِي
أَخْرَجْتُ رُوحَهُ وَلَايَزَالُ مَلَكُ الْمَوْتِ عِنْدَهُ حَتَّى
يَأْمُرَهُ بِقَبْضِ رُوحِهِ وَ إِذَا كُشِفَ لَهُ الْغِطَاءُ فَيَرَى
مَنَازِلَهُ فِي الْجَنَّةِ ''مجھے میرے رب نے اس انسان کی بات سننے
اوراس کی اطاعت کرنے کا حکم کیا ہے،اورجب تک وہ مجھے حکم نہ کرے میں ا س کی
بدن سے روح کو نہیں نکالوں گا ، جب وہ مجھے حکم دیں تو میں قبض روح کروں گا
،اس کے بعد ملک الموت اس کے پاس بیٹھا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے قبض روح کرنے
کا حکم ملتا ہے،روح کو نکالنے کے بعدجب اس کے سامنے سے پردہ ہٹ جاتا ہے
تووہ بہشت میں اپنے درجہ اورمقام کو دیکھتا ہے ''فَيُخْرِجُ رُوحَهُ مِنْ أَلْيَنِ مَا يَكُونُ مِنَ الْعِلَاجِ''تو
بہت ہی آسان طریقہ سے اس کے بدن سے اس کے روح کو نکالتا ہے،بعض روایات میں
ہے کہ مؤمن کا قبض روح اس طرح ہے کہ کوئی پھول اس کے ناک کے سامنے سے
گزاردیں اوروہ قبض روح ہوجاتا ہے ''ثُمَّ
يُشَيِّعُ رُوحَهُ إِلَى الْجَنَّةِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ ''پھر
اس کے بعد ستر ہزار فرشتے اس کی روح کا تشییع کرتے ہیں۔
ایک اور روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا :''عَنْ
رَسُولِ اللَّهِ ص: مَنْ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ يَعْنِي آيَةَ الْكُرْسِيِّ
إِذَا فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ لَمْ يَكِلِ اللَّهُ قَبْضَ رُوحِهِ
إِلَى مَلَكِ الْمَوْتِ '' جو شخص واجبی نمازوں کے بعد آیت الکرسی
کوپڑھے خداوند متعالی اس قدراس پرعنایت اورتفضل کرتا ہے حتی کہ اس کے قبض روح
کرنے کو بھی ملک الموت کے حوالہ نہیں کرتا ،بلکہ خود خدا قبض روح کرتا ہے ۔یہ
تھیں ملک الموت کے بارے میں چند روایات۔
و صلي الله علي محمد و
آله الطاهرين
نظری ثبت نشده است .