موضوع: قرآنی دروس
تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/١٧
شماره جلسه : ۶
چکیده درس
-
‘‘الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’کہ اس آیت کریمہ میں طیّبین کے بارے میں دواحتمال ہے،ایک یہ ہے کہ طیّبین،نفوس متقین کے لئے حال ہے،یعنی متقین دنیا سے جاتے ہوئے ان کی حالت یہ ہے کہ ان کےنفوس طیّب ہیں اورظلم کی گندگی اورخباثت سے پاک ہیں،دوسرااحتمال یہ ہے طّیبن متقین سے مربوط ہے لیکن نہ کہ خود متقین بلکہ ان کے وفات سے مربوط ہے،اس کے چند مؤیدات ہیں
دیگر جلسات
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
ہماری بحث سورہ نحل کی آیت ٣٢ کے بارے میں تھی‘‘الَّذينَ
تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ
ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’کہ اس آیت کریمہ
میں طیّبین کے بارے میں دواحتمال کوبیان کیاتھا،ایک یہ ہے کہ طیّبین،نفوس
متقین کے لئے حال ہے،یعنی متقین دنیا سے جاتے ہوئے ان کی حالت یہ ہے کہ ان
کےنفوس طیّب ہیں اورظلم کی گندگی اورخباثت سے پاک ہیں،دوسرااحتمال یہ ہے
طّیبن متقین سے مربوط ہے لیکن نہ کہ خود متقین بلکہ ان کے وفات سے مربوط
ہے،اس کے لئے ہم نے چند مؤیدات کو بیان کیا تھا کہ ان میں سے ایک آج بیان
کررہاہوں وہ یہ ہے کہ آیت کریمہ فرشتوں کے کام کو بیان کررہی ہے‘‘الَّذينَ
تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ’’اوریہ
قرینہ ہے کہ طیّبین متقین کے وفات سے مربوط ہے یعنی متقین کی وفات طیّب
وطاہرصورت میں ہے اسی لیے انہیں وفات پانے میں کوئی دکھ اوردرد کا احساس
نہیں ہے۔
آیت میں آگے فرماتا ہے:‘‘يَقُولُونَ
سَلامٌ عَلَيْكُمْ’’اسی طرح سورہ زمر کی آیت کو اس کے ساتھ رکھیں‘‘وَسيقَ الَّذينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً حَتَّى
إِذا جاؤُها وَ فُتِحَتْ أَبْوابُها وَ قالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ
عَلَيْكُمْ’’ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ فرشتوں کی دو گروہ
ہیں،فرشتوں کی ایک گروہ قبض روح کے وقت مؤمنین اورمتقین کوسلام کرتے
ہیں،اوردوسراگروہ بہشت کے خزانہ دارہیں،یعنی وہ فرشتے جوبہشت کوتیارکرتے
ہیں تامتقین وہاں پرداخل ہو جائے ،وہاں پربھی فرشتوں کی یہ گروہ انہیں‘‘سلام
علیکم’’ کہتے ہیں،پس دوقسموں کے سلام علیکم ہے یہ دونوں ایک نہیں ہے
کیونکہ ظاہر آیت کریمہ یہ ہے کہ یہ سلام وفات کے وقت کا سلام ہےاورقیامت کے
دن کہنے والا سلام مراد نہیں ہے بلکہ وہی سلام ہے جو وفات کے وقت کہا جاتا
ہے،اوراس سلام کا معنی متقین کے لئے قولی امن وامان کا اظہارکرنا ہے،سورہ
زمرآیت ٧٣میں‘‘وَقالَ لَهُمْ
خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها خالِدينَ’’ ہے
لیکن یہاں پراس آیت میں‘‘ادْخُلُوا
الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’ہے یہ بھی وفات کے وقت ان سے
کہا جائے گا۔
یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ابھی قیامت کے جنت میں داخل ہونے کا وقت نہیں ہے
چونکہ جب تک برزخ کی مدت ختم نہ ہوجائے قیامت کی بہشت اورجہنم نہیں ہے ،
پس‘‘ادْخُلُوا الْجَنَّةَ’’یعنی انہیں قیامت کی بہشت کو دیکھایا جاتا
ہے،یعنی فرشتے متقین کو وفات کے وقت سلام علیکم کہتے ہیں اس کے ان سے کہیں
گے:‘‘ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما
كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’اوراچھے اعمال کی وجہ سے قیامت کے دن جس بہشت
میں داخل ہونا ہے اسے انہیں دیکھایاجاتاہے،گویااس میں داخل ہی ہوگیاہے،لیکن
بعدمیں جو''فادخلوہا ''بتایاجائے گاوہ داخل ہی ہوناہے فعلی اورحقیقی داخل
ہوناہے صرف دیکھانا نہیں ہے۔
ہم یہاں یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ‘‘يَقُولُونَ
سَلامٌ عَلَيْكُمْ ’’وفات کے وقت کہا جاتا ہے،اگرہم یہ بتائیں کہ یہ
قیامت کے دن سے مربوط ہے تویہاں پرکسی چیزکومقدرمیں رکھناپڑے گا،یعنی گویا
ہم یوں بتائیں:'' یقولون فی یوم
القیامة '' یعنی محشر کے دن ''سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعلمون'' کہا جائے گا ،حالانکہ
آیت کا ظاہر یوں ہے : ‘‘الَّذينَ
تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ
ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’۔
اہل سنت کے بعض تفاسیر جیسے تفسیر قرطبی میں لکھا ہے:‘‘
سَلامٌ عَلَيْكُمْ ادْخُلُوا
الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’اس آیت سے مراد یہ ہے:''ان
یکون السلام انذاراًلہم بالوفات'' یہ سلام موت سے ڈرانے والاسلام
ہے،یااس آیت سے مراد یہ ہے:''ان
یکون تبشیراً لہم بالجنة لان السلام امانا''یہ سلام ،سلام بشارت ہے
جو ان کو بہشت کی بشارت دی رہی ہے کیونکہ یہ سلام،سلام امن ہے ۔
لیکن واضح ہے ڈرانا یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا،البتہ سلام وداع ہے،سلام
خروج ہے جیسے نمازمیں جو سلام ہے اسے نماز سے نکلنے والے سلام پر حمل کرتے
ہیں ،لیکن ہم آیت کریمہ میں یہ بتائیں کہ اس میں‘‘سلام علیکم’’وفات سے
ڈرانے والا سلام ہے ،اس کا کوئی معنی نہیں ہے چونکہ وفات توختم ہو چکا
ہے،طیّبین میں سے تھے،اس کے بعد ‘‘سلام علیکم’’کہتے ہیں یہ امن وامان
والاسلام ہے فرشتے یہاں کہتے ہیں تم پریشان نہ ہو ،تم نے ایمان اورتقوی کے
ساتھ زندگی گزاری ہے،اب تم کامل طور پرامن وامان میں ہیں ‘‘الْجَنَّةَ
بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون’’۔
اہل سنت کی کتابوں میں محمدبن کعب القروی سے ایک روایت نقل ہے''قال
اذا استنقعت نفس المومن جائہ ملک الموت''کسی برتن میں اس کے بھرنے تک
پانی ڈالنے کو استنقعت کہتے ہیں،یہاں پریہ مؤمن کے زندگی آخرکوپہنچنے کے لئے
کنایہ ہے،جب زندگی اختتام کوپہنچتی ہےتوملک الموت آتا ہے اورکہتا ہے:''السلام
علیک یاولی اللہ ''اسے سلام کرتا ہے اوراس سے کہتا ہے خدا نے تمہیں سلام پہنچا
رہا ہے،کہ ممکن ہے کہ اب تک ہم یہ کہہ رہے تھے ‘‘یقولون سلام علیکم’’یعنی فرشتے
اس شخص کوسلام کرتاہے،یہاں پریہ دوسرا احتمال بھی ہے کہ فرشتے خدا کے سلام کو
پہنچانے والا ہے،خصوصاً ایک آیت میں ہے کہ فرشتے اپنی طرف سے کوئی فعل انجام
نہیں دیتا‘‘لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُون’’ایسانہیں
ہے کہ فرشتے اپنی طرف سے سلام کریں،بلکہ ان کواس کاحکم ہوا ہے ،اس سے بڑھ
کراورکیا مقام ومنزلت ہے کہ موت کے پہلے لحظہ میں ہی خدا انسان کو سلام
کریں،انسان کے فوت ہونے کا وقت ہے کہ اسی وقت خدا اس کو سلام کرتا ہے ، یہ بات
اسی روایت میں بھی نقل ہے ۔
اس روایت میں ہے کہ پہلے خود فرشتہ کہتا ہے:''السلام علیک یا ولی اللہ '' اس کے بعد کہتا ہے کہ خداتمہیں سلام کہہ
رہا ہے''ثم نزع ''اس کے بعد قبض روح کرتا ہے ،اس کے بعد‘‘ادخلوا الجنة’’کی
بشارت دی جاتی ہےتواس کا یہ معنی کیا ہے کہ ہم تمہیں یہ بشارت دیتے ہیں کہ
تم بہشت میں داخل ہوگا،تمہاری جایگاہ بہشت ہے،پس یہاں یاجس وقت فرشتے قبض
روح کررہا ہوتا ہے اسی وقت وہ بہشت میں اپنی جگہ کو دیکھ رہا ہوتا ہے
اورمطمئن ہو کرعالم برزخ کے ایام کو گزارلیتاہے،یااس سے مرادیہ ہے کہ فرشتے
اسے بہشت کی بشارت دیتا ہے چونکہ ابھی قیامت تونہیں ہے اورحساب وکتاب انجام
نہیں پایاہے لہذا بہشت میں داخل ہونے کامعنی تونہیں ہےبلکہ اسے بہشت کی
بشارت دی جاتی ہے ۔
جب تک دنیا میں ہے بہشت اس کے لئے علم الیقین ہے لیکن مرنے کے بعد عین
الیقین اورحق الیقین کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے،اب تک اس کے لئے علم الیقین
تھا،لیکن اس کے بعد سے اس کے لئے عین الیقین یا حق الیقین ہے،وہ سب چیزوں
کو دیکھ رہا ہوتا ہے ۔
‘‘فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ
الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ
اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ وَ كَرِهُوا رِضْوانَهُ فَأَحْبَطَ
أَعْمالَهُم’’ اس آیت کے بارے میں بحث کرنے کے لئے اس سے پہلے کی دو
آیتوں کو بھی پڑھنا ہوگا‘‘إِنَّ
الَّذينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِم’’جو الٹے پاؤں پلٹ گئے
ہیں،اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ کون لوگ ہیں،اس سے مرادیا اہل کتاب ہیں کہ
‘‘مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ
الْهُدَى’’ہدایت ان کے لئے واضح ہوگئی کہ کتاب تورات میں پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کانام مبارک ذکر ہواتھااوران لوگوں نے بھی سمجھا
تھا کہ رسول گرامی اسلام وہی پیغمبرہے جس کے بارے میں تورات میں وعدہ کیا
گیاتھا ،لیکن اسے سمجھنے کے بعد منکر ہوئے۔
یا اس‘‘إِنَّ الَّذينَ ارْتَدُّوا’’سے مراد وہ منافقین ہیں جنہیں قرآن کریم نے
جنگ کرنے کا حکم دیاتھالیکن انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نہ
سنی اورمخالفت کی اورجنگ میں نہیں گئے !پس اس سے مراد یااہل کتاب کفارہیں
یا منافقین،کہ اس کے بعد فرماتا ہے ‘‘الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ ’’شیطان نے انہیں دھوکہ
دیاہے،دوسری وجہ یہ ہے کہ‘‘وَأَمْلى
لَهُم’’ان کی بہت زیادہ آرزوئیں ہیں،شیطان کے کاموں میں سے ایک یہ
ہے کہ وہ کہتا ہے:ابھی عمرطولانی ہے اوران کاموں کے لئے بہت وقت ہے ! شیطان
دھوکہ دیتا ہے اورحق کو باطل اورباطل کوحق جلوہ کرتا ہے اورشیطان کا دوسرا
کام یہ ہے کہ وہ انسانوں میں بہت آرزوئیں پیدا کرتا ہے،کہتاہے تمہاری
عمرطویل ہوگی،بعدمیں ان سب کاموں کوانجام دے دو،یہ پچسویں آیت ہے،چھبیسویں
آیت میں فرماتا ہے‘‘ذلِكَ
بِأَنَّهُمْ قالُوا’’یہ''ذلک''
یعنی شیطان کا دھوکہ دینا اس لئے ہے‘‘ْقالُوا لِلَّذينَ كَرِهُوا ما نَزَّلَ اللَّه ’’یہ منافقین اورمشرکین
میں سے اہل کتاب وہ ہیں جنہوں نے خدا کے نازل کردہ احکام کی مخالفت کی
ہیں،انہوں نے یہ بولے:‘‘ سَنُطيعُكُمْ في بَعْضِ الْأَمْر’’تم لوگ پیغمبر اکرم ۖ کی مخالفت
کرو،ہم بھی اسی طرح پیغمبر اکرم کی مخالفت کریں گے،ان کے ساتھ جنگ لڑنے
نہیں جائیں گے اوران کے ساتھ دشمنی کریں گے، منافقین اوراہل کتاب نے مشرکین
کے ساتھ مخفی طور پریہ عہد وپیمان کیے تھے‘‘وَ
اللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرارَهُم’’خدافرماتاہے کہ میں ان کی پوشیدہ
مشوروں سے آگاہ ہوں ۔
خدا فرماتا ہے کہ تم ابھی پیغمبر اکرم ۖ کے خلاف مشورہ کر رہے ہوں‘‘فَكَيْفَ
إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُم’’لیکن
جب فرشتے تمہاری جانیں نکالیں گے ، کیاتم وہاں پربھی کوئی پوشیدہ کام کرسکو
گے؟! دنیا میں تم آپس میں پیغمبر اکرم ۖ کے خلاف مشورہ کرو،خداتمہارے اس
کام سے باخبر ہے اورخدانے پیغمبر اکرمۖ کو بھی تمہاری اس مشورہ سے آگاہ کیا
ہے،لیکن آیت میں فرماتا ہے فکیف،یعنی‘‘فکیف
یکون حالہم اذا توفتہم الملائکة’’ جب فرشتے آتے ہیں اوران کی قبض
روح کرتے ہیں‘‘يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُم’’اس ''يَضْرِبُونَ
وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُم’’سے کیا مراد ہے؟ملائکہ ان کے چہروں پر
بھی مارتے ہیں اور ان کے سرینوں پربھی مارتے ہیں ۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ''وجوہ''
سے مراد تمام اگلا حصہ ہے؟جس میں چہرہ ، سینہ،پاؤں سب شامل ہیں،اور''ادبار''
سے مراد بدن کا تمام پشت ہے؟
دوسرا احتمال یہ ہے کہ ''وجوہ
''سے مرادچہرہ ہے اورادبارسے مراد سرینہ ہے۔
پہلے احتمال کے مطابق فرشتے بدن کے تمام آگلے اورپچھلے حصوں پرمارتاہے،اور
دوسرے احتمال کے مطابق فرشتے چہروں اورسرینوں پر مارتا ہے۔
علامہ طباطبائی رضوان اللہ علیہ فرماتے ہیں :''ای
یضربون مقادیم ابدانہم ''یعنی بدن کے پورے اگلے حصہ پرمارتا ہے''وخلاف
ذلک فیکّنی بہ عن احاطتہم واستیعاب جہاتہم بالضرب''یہ کنایہ ہے کہ
یضربون وجوہہم وادبارہم سے پورابدن ارادہ ہواہے،ان کے پورے بدن
پرماراجاتاہے کوئی حصہ باقی نہیں بچتا،علامہ فرماتا ہے کہ یہ ''وجوہ''
بدن کے پورے اگلے حصہ کے لئے کنایہ ہے اور''ادبار'' انسان کے پشت کے لئے کنایہ ہے یعنی اس کے اگلے اورپچھلے
تمام حصوں پرماراجائے گا اورکوئی جگہ باقی نہیں بچے گا،پاؤں کے ناخن کے نوک
سے لے کرسرتک فرشتے ماریں گے،اوردوسرااحتمال کہ صرف اس کے چہرہ اورنشیمن
گاہ پرمارے گا یہ ضعیف احتمال ہے،اگرچہ''ادبر''کو نشیمن گاہ معنی کیا ہے
لیکن علامہ کی یہ فرمایش بہت ہی مناسب ہے کہ یہ کنایہ ہے پورے بدن کے لیے
کہ پورے بدن پرماراجائے گا ۔
یہاں پرسوال یہ ہے کہ یہ''یضربون
وجوہہم ''ان کومارناوفات پانے سے پہلے ہے،یاوفات پاتے ہوئے ہے ،یا وفات
پانے کے بعد ؟
البتہ اس بارے میں سورہ انفال کی آیت بھی ہے ‘‘وَ
لَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ
وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُم ’’ ۔
یہاں پروفات پانے سے پہلے یقینانہیں ہے کیونکہ آیت میں فرماتا ہے‘‘إِذْ يَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ’’لہذایا قبض روح
کرتے وقت بتانا چاہئے یا قبض روح ہونے کے بعد ،معلوم ہوتا ہے کہ آیت کریمہ
کاظاہریہ ہے کہ ان کی قبض روح انہیں مارتے ہوئے واقع ہوتاہے،یعنی فرشتے ان
کو اس قدرمارتے ہیں یہاں تک کہ ان کی روح ان کے بدن سے نکل جاتی ہے،یہ بہت
ہی عجیب بات ہے،کیونکہ اگر قبض روح ہوجائے اوربغیر مارے روح بدن سے خارج
ہوجائے،توروح نکلتے ہوئے کوئی درد نہیں ہونا چاہئے ''وجوہ ''یہی ظاہری بدن
ہے،یہ جوہم عرض کررہے ہیں کہ قبض روح کے وقت،اورقبض روح کرنے کے لئے انہی
ماراجاتا ہے،اس وجہ سے ہے کہ آیت میں یہ نہیں فرماتا کہ ان کے نفس پرمارتے
ہیں،بلکہ خودان کے چہروں پرماراجاتا ہے،یعنی کوئی کافرجو اس دنیا سے
جارہاہے،ہمیں نظرنہیں آتا لیکن فرشتے اس کے قبض روح کرنے کے لئے اسے ماررہے
ہوتے ہیں ۔
اور روح قبض ہونے کے بعدمارنے کا کوئی فایدہ نہیں ہے کیونکہ اس میں کوئی جان
نہیں ہے کہ اس مارنے کی وجہ سے کوئی درداحساس کرے،لہذا ملائکہ قبض روح کرنے کے
لئے انہیں مارتے ہیں،اورمارنے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ چیزیں ہیں جن سے وہ
مارتے ہیں ۔و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
نظری ثبت نشده است .