موضوع: قرآنی دروس
تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١١/٢٥
شماره جلسه : ۹
چکیده درس
دیگر جلسات
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
ہماری گفتگواس میں تھی کہ کیا مؤمن اورکافرکے قبض روح میں فرق ہے یا کوئی فرق نہیں ہے؟موت کی سختیاں سب کے لئے ہے؟کہ ہم یہ بتائیں کہ خود موت اورموت میں حقیقی طورپرکچھ سختیاں اورپریشانیاں ہیں ،اوروہ عام ہے ،انبیاء اورغیرانبیاء سب اس میں شامل ہیں،سبهی کوان سختیوں کوتحمل کرنا پڑے گا،چونکہ خود موت کی حقیقت میں ایسی خصوصیت ہے،لیکن ان سختیوں کے بعد دوسری مشکلات میں درجات کے لحاظ سے مختلف ہیں کہ سب سے زیادہ سختیاں اورمشکلات کفار،منافقین ،مشرکین اورظالمین کے لئے ہے ۔
بیان ہواکہ قرآن کریم میں کافروں،مشرکوں اورمنافقوں کی نسبت''یضربون وجوہہم و ادبارہم ''ذکر ہوا ہے کہ اس آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ موت کی اصلی سختیوں کے اورمشکلات کے علاوہ ان کے لئے چہروں اورسرینوں پر مارنا بھی ہے ،"الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبين"اگراس آیت کو اسی طرح معنی کریں جس طرح علامہ طباطبائی اور مشہور نے کیا ہے کہ طیّبین کو متقین کے لئے صفت قرار دیا ہے یعنی متقین طیّب طور پردنیا سے جاتے ہیں،تواس کانتیجہ یہ ہوگا کہ مؤمن کے قبض روح کی کیفیت کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی مطلب بیان نہیں ہوا ہے " وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحيدُ " .
ان آیات کریمہ سے جو نتیجہ ہم لیے سکتے ہیں یہ ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں سختیاں اوربے ہوش ہونا ہے،اوریہ سختیاں اوربیہوشی سب کے لئے ہے ''سکرة ''سختی کے معنی میں ہے ،سکرة الموت یعنی موت کی سختی،مجمع البحرین میں سکرة الموت کا یوں معنی کیا ہے''ای شدّة التی تغلبہ وتغیّرفہمہ وعقلہ'' یعنی موت کی خود اپنی ذاتی سختیاں ہیں اوروہ یہ ہے کہ اسے حیران وسرگردان کرا دیتا ہے ،یہ سب کے لئے ہے ،ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ مومنین اورانبیاء کے لئے نہیں ہے ،بلکہ یہ سب کے لئے ہے ۔
مستی کے بہت سارے مصادیق ہیں ،یہاں پر مستی سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیزکو سمجھ نہیں سکتا ،اسے معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں آیا ہے ؟حیران اورسرگردان ہے ۔
قبض روح کی خود اپنی ایک حقیقت ہے کہ سختی اورمشکلات اس کالازمہ ہے ، جس طرح بخار کی ایک حقیقت ہے ،اب اس میں فرق نہیں کہ وہ بخار ہونے والا مؤمن ہویا کافر،اس میں انسان کے اندر کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے ،ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ اگر انبیاء کو بخارہوتو ان کے بدن کادرجہ حرارت زیادہ نہیں ہوتا ! بلکہ بدن کا درجہ حرارت زیادہ ہونا بخار کی حقیقت ہے ،آیت کریمہ کا ظاہر یہ ہے کہ ''سکرة الموت'' یعنی موت کی بیهوشی ہے اور یہ سب کے لئے ہے ۔
پس پہلا نکتہ یہ ہے کہ سورہ نحل کی آیت میں طیّبین کا وہ معنی کریں جسے ہم نے بیان ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خداوند متعالی نے کافروں اور منافقین کی قبض روح کی کیفیت کو بیان کیا ہے اور مومنین کی قبض روح کی کیفیت کو بھی بیان کیا ہے ،لیکن اگرہم وہاں مشہور اور علامہ طباطبائی کی طرح معنی کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں مومنین کی قبض روح کی کیفیت کو بیان نہیں کیا ہے ،صرف کافروں اور منافقوں کی سختیوں کو بیان کیا ہے کہ ان کے لئے (یضربون وجوہہم و ادبارہم ) ہے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے :کہ ایک عمومی قانون کے مطابق خداوند متعالی نے یہ فرمایا ہے کہ موت کی سختیاں ہے ()لیکن کافروں کے لئے اس کے علاوہ (یضربون وجوہمم و ادبارہم ) بھی ہے ،یعنی ان کے لئے یہ اضافی عذاب ہے ،البتہ ممکن ہے کہ ہم یہ بتائیں کہ یہ سکرة الموت کے بھی مختلف درجات ہیں ،لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی کے لئے سکرة الموت نہ ہو،اگر سکرة الموت نہ ہو تو موت ہی نہیں ہے ،جس طرح ہم بولتے ہیں کہ کسی چیز کی ذات اس سے قابل انفکاک نہیں ہے ،اگر ہم سکرة کو موت کا ذات بتائیں جس طرح حرارت بخار کا ذات ہے تو اس صورت میں ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ بخار ہے لیکن اس کابدن گرم نہیں ہے ۔
نوٹ:بعض روایات میں ہے کہ میت کی آنکھیں کھلا کھلا رہ جاتا ہے وہ اپنے ارد گرد دیکھنا چاہتا ہے ،اپنے عزیزوں کو دیکھنا چاہتا ہے تا کہ انہیں بلائیں لیکن اس وقت اس کے اندر یہ قدرت بھی نہیں ہوتی ۔
یہاں پر ایک علمی مطلب یہ ہے کہ :اگر قرآن کریم کی کوئی آیت دلالت کرے کہ موت کے لئے سکرة ہے ،لیکن کوئی روایت میں یہ بیان ہو جائے کہ مومن کے لئے سکرة نہیں ہے ،یہاں پر یہ عام و خاص اور اطلاق اور تقیید کے بحث میں سے ہوگا ،کیا یہاں پر یہ قانون جاری ہوگا یا نہیں ؟افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصول کی کتابوں میں عام و خاص لے بحث میں اس بارے میں بحث نہیں کی ہے ، لیکن ہم نے اس بارے میں بحث وگفتگو کی ہے کہ کیا جس طرح باب احکام خبر واحد حجت ہے ،کیا اسی طرح خبر واحد آیات قرآن کی تفسیر کے طور پر حجت ہے یا نہیں ؟ بعض جیسے آقای خوئی قدس سرہ ،ہمارے مرحوم والد رضوان اللہ علیہ اور ہم بھی ان کے اتباع کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ خبرواحد کی حجیت صرف حکم شرعی کے بیان سے مخصوص نہیں ہے ،بلکہ اگر کوئی خبر واحد کسی آیت کا معنی بیان کرے ،کسی آیت کی تفسیر میں کوئی خبر واحد نقل ہو جائے تو یہ خبر بھی حجت ہے ،لیکن بعض جیسے مرحوم علامہ طباطبائی وغیرہ کا نظریہ یہ ہے کہ حجیّت خبر واحد کی دلیلیں صرف وہاں کے لیے ہے جہاں کسی احکام شرعی کو بیان کر رہا ہو ، اور آیت کو بیان کرنے والی خبر واحد ان ادلہ میں شامل نہیں ہے ،اسی لیے ہے کہ تفسیر المیزان میں اگر کسی آیت کو معنی کرنا چاہئے توکسی روایت کو نقل نہیں کرتا ہے ،بلکہ قرآن کو خود قرآن کے ذریعہ معنی کرتا ہے ،اور تفسیر بیان کرنے کے بعد آخر میں ''بحث روائی'' کے عنوان سے روایات کو تائید کے طور پر ذکر کرتا ہے لیکن حجیّت کے عنوان سے ذکر نہیں کرتا ۔
یہی بحث یہاں پر ہے کہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ موت کے لئے سکرة ہے «وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ» اب اگرہمیں بعد میں کوئی ایسی روایت ملے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ مومن کے لئے سکرة نہیں ہے ،کیا یہ روایت اس آیت کا مخصص ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ کیاعام وخاص کے قانون اوراطلاق وتقیید کے عمومی قانون کو ان جیسے آیات اور روایات جو کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لئے نہیں ہے جاری کر سکتے ہیں یا نہیں ؟آپ کو معلوم ہے کہ تخصیص کا اصلی ملاک اورمعیار خودعقلاء ہیں ،اگر کسی نے کہا ان تمام قالینوں کو لے جاؤ ،اوردو دن بعد آکر بولے کہ اس ایک قالین کو نہیں لے جانا،عقلاء کہتے ہیں کہ یہ پہلے بیان کامخصص ہے ،اسی کو ہم اس اعتقادی بحث میں جاری کرنے میں کیا مشکل ہے ،اگرہمیں کوئی روایت ملے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ مومن کے لئے سکرة الموت نہیں ہے ،تو اسے مقید قرار دینا چاہئے ،اور یہ اسی آیت کریمہ کے لئے مخصص ہوگا ۔
جب ہم روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو بعض روایات سے یہی استفاد ہ ہوتا ہے کہ سکرة الموت سب کے لئے ہے اور یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،ایک روایت یہ ہے ''لمّا حزرت الحسن بن علي الوفاة بكي» جب امام حسن علیہ السلام کے وفات کا وقت قریب ہوا اس وقت آپ نے گریہ فرمارہے تھے «فقيل يابن رسول الله أتبكي و مكانك من رسول الله (ص) مكانك الذي أنت به و قد قال فيك رسول الله(ص) ما قال و قد حججت عشرين حجّ ماشياً و قد قاسمت ربّك مالك ثلاث مرّات حتّي النعل و النعل» سائل نے امام حسن علیہ السلام سے عرض کیا :آپ کیوں گریہ کر رہے ہو؟ سب سے پہلے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے نزدیک آپ کی قدروقیمت اورعزیز ہے ،اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ رسول اکرم نے آپ کے بارے میں کیا فرمایا ہے ،آپ اور آپ کے بھائی کے بارے میں فرمایا : «الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة» اور آپ ٢٠ بار پیدل حج کر چکے ہیں «قاسمت ربّك مالك ثلاث مرّات» تین بار آپ اپنی پوری مال ومنال کو غرباء اور مساکین میں تقسیم کر چکے ہیں ،ان سب کے باوجود آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں؟ «فقال (ع) إنّما أبكي لخصلتين لحول المطلّع و فراغ الاحّبه» آپ نے فرمایا : میرا گریہ ان مطلّع گرفتاریوں اور مشکلات کی خاطر ہے ،''حول المطلع '' سے مراد آخرت ہے یعنی قیامت ،قیامت کو مطلّع کہتے ہیں چونکہ انسان اپنے کاموں سے باخبر ہوتا ہے ، «الذي يحصل الاطلاع عليه بعد الموت»جب تک موت واقع نہ ہو جائے قیامت کے بارے میں کوئی اطلاع پیدا نہیں کر سکتے ،حول مطلّع کا معنی یہ ہے کہ خود موت ایک حقیقت ہے کہ اس سے انسان قیامت کے بارے میں اطلاع پیدا کرتا ہے ،امام فرماتا ہے کہ میں اس کی سختیوں کی وجہ سے گریہ کررہا ہوں !اگر حول مطلّع سے مراد صرف قیامت کے دن کا حساب و کتا ب ہو تو اس صورت میں ہماری بحث سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے ،لیکن اگر مطلّع سے مرا د یہ ہو کہ انسان اوپر سے نیچے کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے ،عرب اسے مطلّع کہتے ہیں ،موت بھی ایسا ہے کہ جب موت واقع ہوتی ہے تو انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا خبر ہے ؟ یعنی ہم یہاں یہ بتائیں کہ خود موت ایک ہولناک حقیقت رکھتی ہے ۔
اسی باب کے روایت نمبر ٢٧ میں ایک خوبصورت واقعہ بیان ہوا ہے کہ ؛ امام صادق علیہ السلام فرماتا ہے «إنّ عيسي بن مريم جاء إلي قبر يحيي بن زكري»حضرت عیسی علیہ السلام حضرت یحیی بن زكریا کے قبر کے کنارے آئے «وكان سأل ربّه عن يحيئه له» اورخدا سے دعا کی کہ حضرت یحییٰ کو زندہ کرے «فدعاه فأجابه و خرج إليه من القبر»حضرت عیسیٰ نے دعا کی اور خدا نے بھی اس دعا کو قبول فرمایا اورحضرت یحییٰ قبر سے نکل آئے !حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ سے فرمایا «ما تريد منّي» کیوں مجھے قبر سے باہر نکالا ہے کیا کام ہے مجھ سے ؟ «فقال أريد عن تؤنسني كما كنت في الدنيا» جس طرح دنیا میں تھا اسی طرح میرا دوست بن جاؤ،کچھ مدت میرے ساتھ رہو پھر اس کے بعد دوبارہ دنیا سے چلے جاؤ گے «فقال له يا عيسي ما سكنت عنّي حرارة الموت»اس وقت حضرت یحییٰ نے حضرت عیسی سے کہا : اے عیسیٰ ابھی تک موت کی سختیاں میرے روح اوربدن میں باقی ہے اورمجھے آرام نہیں ہے «و أنت تريد عن تعيدني إلي الدني»تم چاہتے ہو کہ میں دوبارہ دنیا میں آجاؤں «و تعود عليّ حرارة الموت» تا کہ میں دوبارہ موت کی سختیوں کو تحمل کروں ؟ یعنی حضرت یحییٰ فرما رہے ہیں کہ خود موت کی اتنی سختیاں اورسکرة ہے کہ ایک دفعہ متحمل ہوا ہوں یہی کافی ہے ،یعنی بہت ہی ہولناک اورمشکل ہے اوروہ بھی حضرت یحییٰ فرمارہے ہیں «فتركه فعاد إلي قبره» اس طرح انہوں نے حضر ت عیسیٰ کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اوردوبارہ اپنے قبر مطہر کی طرف پلٹ گئے ،معلوم ہوا کہ خود موت کی اتنی سختیاں ہیں۔
مرحوم مجلسی کا یہاں پر ایک بیان ہے فرماتا ہے :''لعل ذوق حرارة الموت انما یکون بعد استمرار تعیّش فی الدنیا و عوو التعلقات '' موت میں کیوں اتنی تپش ہے ؟ چونکہ انسان کابہت سے چیزوں سے تعلقات ہے اور قبض روح سے مراد ان تمام تعلقات کو توڑنا ہے ،حضرت یحییٰ کےکلام میں جو عبارت ہے ''ما سکنت عنّی حرارة الموت'' اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہت وقت گزر گیا تھا تاریخ کو تو ہم معیّن نہیں کر سکتے کہ حضرت یحییٰ حضرت عیسیٰ سے کتنی مدت پہلے تھے ،یقینا بہت وقت گزرا ہے ، لیکن اس کے باوجود فرماتا ہے ''ما سکنت عنی حرارة الموت'' اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان برزخ میں وارد ہونے کے بعد کافی وقت لگتا ہے کہ اس کے بدن سے موت کی تپش ختم ہو جائے ، یہ دو روایت ابھی تک اسی چیز کو ثابت کر رہی ہے کہ سکرة الموات سب کے لئے ہے ،امام حسن کے واقعہ کے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اوراس واقعہ سے بھی ۔
ایک اور روایت یہ ہے : «قال علي بن الحسين عليهم السلام أشدّ ساعات ابن آدم ثلاث ساعات» انسان کے لئے سخت ترین وقت ،تین وقت ہے ،اس میں پھر یہ بیان نہیں کیا ہے کہ کونسا ابن آدم ،بلکہ ابن آدم کو مطلق رکھا ہے سب کے سب اس میں شامل ہے ،جو بھی ابن آدم ہو «الساعة التي يعاين فيها ملك الموت»پہلا یہ ہے جب انسان کے بدن سے اس کا روح نکل جاتا ہے «والساعة التي يقوم فيها من قبره والساعة التي يقف فيها بين يدي الله تبارك و تعالي فإما إلي الجنة و إما إلي النار» دوسرا جب وہ محشور ہوتا ہے ،اورتیسراجب انسان خدا کے حضورمحشورہو گا ،اس وقت یا بہشت کی طرف جانا ہے یا جہنم کی طرف «ثم قال»اس کے بعد فرمایا: «إن نجوت يابن آدم عند الموت فأنت أنت و إلا هلكت»اگر موت کے وقت تم نے نجات پائی تو تمہاری عاقبت اچھی ہے لیکن اگر موت کے وقت مشکل اورسختیوں سے گزراتو تم ہلاک ہوگیا «و إن نجوت يابن آدم حين توزع في قبرك فأنت أنت و إلا هلكت»جس وقت تمہیں قبر میں رکھا جارہا ہے اس وقت تم نے اگر نجات پائی تو نجات پائی «و إن نجوت حين يحمل الناس علي الصراط فأنت أنت و إلا هلكت و إن نجوت حين يقوم الناس لربّ العالمين فأنت أنت و إلا هلكت ثم تلي و من ورائهم برزخٌ إلي يوم يبعثون».اس روایت میں ہماری مورد بحث مطلب یہ ہے کہ قبض روح انسان کےلیے شدیدترین وقت ہے یعنی اس کے لئے سکرة الموت ہے اگرچہ وہ انسان ایک اچھا انسان ہوپھربھی اس کے لئے سکرة الموت ہے ۔
ایک اورروایت یہ ہے : «عن ياسر الخادم قال سمعت الرضا (ع)»امام رضا علیہ السلام فرماتا ہے«إن أوحش ما يكون هذا الخلق في ثلاثة مواطن» ابن آدم کے لئے سخترین زمان اورمکان تین ہیں «يوم يولد و يخرج من بطن امه فيرد الدنيا و يوم يموت فيعاين الآخرة و أهلها و يوم يبعث فيري أحكاماً لم يرها في دار الدنيا و قد سلّم الله عزوجل علي يحيي في هذه الثلاثة المواطن و آمن روعته» فرمایا کہ تین جگہ ایسے ہیں کہ انسان کے لئے شدیدوحشت کا مقام ہے پہلا وہاں ہے جب انسان ملک الموت کو دیکھتا ہے،بعد میں فرماتا ہے کہ خداوند متعالی نے حضرت یحیی بن زکریا کو ان تینوں جگہوں پر امان دیا «فقال و سلامٌ عليه يوم وُلِد و يوم يموت و يوم يبعث حيّ»اس آیت کریمہ کو اس روایت کے ساتھ رکھیں جو حضرت عیسی اورحضرت یحیی کے بار ے تھی ، خداوند متعالی کے حضرت یحیی کو امان دینے کے باوجود انہوں نے حضرت عیسی سے کہا : «ما سكنت عنّي حرارة الموت».۔
حضرت عیسی کے بارے میں یہ بھی ہے«وقد سلّم عيسي بن مريم عليه السلام علي نفسه في هذه الثلاثة المواطن فقال والسلام عليّ يوم ولدت يوم اموت و يوم ابعث حيّ» کہ حضرت عیسی نے ان تینوںجگہوں کے بارے میں اپنے آپ پر سلام بھیجا ہے، یہ بھی ایک روایت کہ جو دلالت کرتی ہے کہ خود موت کی بہت سختیاں ہیں اورایسا نہیں ہے کہ بعض افراد کے لئے موت کے وقت کوئی سختی نہ ہو ، موت کی ایک ذاتی سکرة اورسختی ہے ۔
ایک اورروایت : «من صام من رجب أربع و عشرين يومه» پیغمبر اکرم فرماتے ہیں : «فإذا نزل به ملك الموت تراءا له في سورة شاب»جو بھی ماہ رجب میں ٢٤ دن روزے رکھے وہ ملک الموت کو ایک جوان کی شکل میں دیکھتا ہے«عليه حلّةٌ من ديباج اخذر» ملک الموت بہشت سے ایک شراب لے کر اس شخص کو دیتا ہے اور سکرات موت کو اس کے لئے آسان کرتا ہے ، سکرات ہے لیکن آسان کرتا ہے ایسا نہیں ہے کہ سکرات موت ہی نہ ہو ،سکرات موت ہے لیکن آسان ہے ، اسی طرح حضرت یحیی کے بارے میں جس امان کی بات ہوئی وہ بھی ایسا ہے کہ کچھ آسانی ہوگی لیکن خود سکرات ہے ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
ہماری گفتگواس میں تھی کہ کیا مؤمن اورکافرکے قبض روح میں فرق ہے یا کوئی فرق نہیں ہے؟موت کی سختیاں سب کے لئے ہے؟کہ ہم یہ بتائیں کہ خود موت اورموت میں حقیقی طورپرکچھ سختیاں اورپریشانیاں ہیں ،اوروہ عام ہے ،انبیاء اورغیرانبیاء سب اس میں شامل ہیں،سبهی کوان سختیوں کوتحمل کرنا پڑے گا،چونکہ خود موت کی حقیقت میں ایسی خصوصیت ہے،لیکن ان سختیوں کے بعد دوسری مشکلات میں درجات کے لحاظ سے مختلف ہیں کہ سب سے زیادہ سختیاں اورمشکلات کفار،منافقین ،مشرکین اورظالمین کے لئے ہے ۔
بیان ہواکہ قرآن کریم میں کافروں،مشرکوں اورمنافقوں کی نسبت''یضربون وجوہہم و ادبارہم ''ذکر ہوا ہے کہ اس آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ موت کی اصلی سختیوں کے اورمشکلات کے علاوہ ان کے لئے چہروں اورسرینوں پر مارنا بھی ہے ،"الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبين"اگراس آیت کو اسی طرح معنی کریں جس طرح علامہ طباطبائی اور مشہور نے کیا ہے کہ طیّبین کو متقین کے لئے صفت قرار دیا ہے یعنی متقین طیّب طور پردنیا سے جاتے ہیں،تواس کانتیجہ یہ ہوگا کہ مؤمن کے قبض روح کی کیفیت کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی مطلب بیان نہیں ہوا ہے " وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحيدُ " .
ان آیات کریمہ سے جو نتیجہ ہم لیے سکتے ہیں یہ ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس میں سختیاں اوربے ہوش ہونا ہے،اوریہ سختیاں اوربیہوشی سب کے لئے ہے ''سکرة ''سختی کے معنی میں ہے ،سکرة الموت یعنی موت کی سختی،مجمع البحرین میں سکرة الموت کا یوں معنی کیا ہے''ای شدّة التی تغلبہ وتغیّرفہمہ وعقلہ'' یعنی موت کی خود اپنی ذاتی سختیاں ہیں اوروہ یہ ہے کہ اسے حیران وسرگردان کرا دیتا ہے ،یہ سب کے لئے ہے ،ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ مومنین اورانبیاء کے لئے نہیں ہے ،بلکہ یہ سب کے لئے ہے ۔
مستی کے بہت سارے مصادیق ہیں ،یہاں پر مستی سے مراد یہ ہے کہ وہ کسی چیزکو سمجھ نہیں سکتا ،اسے معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں آیا ہے ؟حیران اورسرگردان ہے ۔
قبض روح کی خود اپنی ایک حقیقت ہے کہ سختی اورمشکلات اس کالازمہ ہے ، جس طرح بخار کی ایک حقیقت ہے ،اب اس میں فرق نہیں کہ وہ بخار ہونے والا مؤمن ہویا کافر،اس میں انسان کے اندر کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے ،ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ اگر انبیاء کو بخارہوتو ان کے بدن کادرجہ حرارت زیادہ نہیں ہوتا ! بلکہ بدن کا درجہ حرارت زیادہ ہونا بخار کی حقیقت ہے ،آیت کریمہ کا ظاہر یہ ہے کہ ''سکرة الموت'' یعنی موت کی بیهوشی ہے اور یہ سب کے لئے ہے ۔
پس پہلا نکتہ یہ ہے کہ سورہ نحل کی آیت میں طیّبین کا وہ معنی کریں جسے ہم نے بیان ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خداوند متعالی نے کافروں اور منافقین کی قبض روح کی کیفیت کو بیان کیا ہے اور مومنین کی قبض روح کی کیفیت کو بھی بیان کیا ہے ،لیکن اگرہم وہاں مشہور اور علامہ طباطبائی کی طرح معنی کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں مومنین کی قبض روح کی کیفیت کو بیان نہیں کیا ہے ،صرف کافروں اور منافقوں کی سختیوں کو بیان کیا ہے کہ ان کے لئے (یضربون وجوہہم و ادبارہم ) ہے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے :کہ ایک عمومی قانون کے مطابق خداوند متعالی نے یہ فرمایا ہے کہ موت کی سختیاں ہے ()لیکن کافروں کے لئے اس کے علاوہ (یضربون وجوہمم و ادبارہم ) بھی ہے ،یعنی ان کے لئے یہ اضافی عذاب ہے ،البتہ ممکن ہے کہ ہم یہ بتائیں کہ یہ سکرة الموت کے بھی مختلف درجات ہیں ،لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی کے لئے سکرة الموت نہ ہو،اگر سکرة الموت نہ ہو تو موت ہی نہیں ہے ،جس طرح ہم بولتے ہیں کہ کسی چیز کی ذات اس سے قابل انفکاک نہیں ہے ،اگر ہم سکرة کو موت کا ذات بتائیں جس طرح حرارت بخار کا ذات ہے تو اس صورت میں ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ بخار ہے لیکن اس کابدن گرم نہیں ہے ۔
نوٹ:بعض روایات میں ہے کہ میت کی آنکھیں کھلا کھلا رہ جاتا ہے وہ اپنے ارد گرد دیکھنا چاہتا ہے ،اپنے عزیزوں کو دیکھنا چاہتا ہے تا کہ انہیں بلائیں لیکن اس وقت اس کے اندر یہ قدرت بھی نہیں ہوتی ۔
یہاں پر ایک علمی مطلب یہ ہے کہ :اگر قرآن کریم کی کوئی آیت دلالت کرے کہ موت کے لئے سکرة ہے ،لیکن کوئی روایت میں یہ بیان ہو جائے کہ مومن کے لئے سکرة نہیں ہے ،یہاں پر یہ عام و خاص اور اطلاق اور تقیید کے بحث میں سے ہوگا ،کیا یہاں پر یہ قانون جاری ہوگا یا نہیں ؟افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصول کی کتابوں میں عام و خاص لے بحث میں اس بارے میں بحث نہیں کی ہے ، لیکن ہم نے اس بارے میں بحث وگفتگو کی ہے کہ کیا جس طرح باب احکام خبر واحد حجت ہے ،کیا اسی طرح خبر واحد آیات قرآن کی تفسیر کے طور پر حجت ہے یا نہیں ؟ بعض جیسے آقای خوئی قدس سرہ ،ہمارے مرحوم والد رضوان اللہ علیہ اور ہم بھی ان کے اتباع کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ خبرواحد کی حجیت صرف حکم شرعی کے بیان سے مخصوص نہیں ہے ،بلکہ اگر کوئی خبر واحد کسی آیت کا معنی بیان کرے ،کسی آیت کی تفسیر میں کوئی خبر واحد نقل ہو جائے تو یہ خبر بھی حجت ہے ،لیکن بعض جیسے مرحوم علامہ طباطبائی وغیرہ کا نظریہ یہ ہے کہ حجیّت خبر واحد کی دلیلیں صرف وہاں کے لیے ہے جہاں کسی احکام شرعی کو بیان کر رہا ہو ، اور آیت کو بیان کرنے والی خبر واحد ان ادلہ میں شامل نہیں ہے ،اسی لیے ہے کہ تفسیر المیزان میں اگر کسی آیت کو معنی کرنا چاہئے توکسی روایت کو نقل نہیں کرتا ہے ،بلکہ قرآن کو خود قرآن کے ذریعہ معنی کرتا ہے ،اور تفسیر بیان کرنے کے بعد آخر میں ''بحث روائی'' کے عنوان سے روایات کو تائید کے طور پر ذکر کرتا ہے لیکن حجیّت کے عنوان سے ذکر نہیں کرتا ۔
یہی بحث یہاں پر ہے کہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ موت کے لئے سکرة ہے «وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ» اب اگرہمیں بعد میں کوئی ایسی روایت ملے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ مومن کے لئے سکرة نہیں ہے ،کیا یہ روایت اس آیت کا مخصص ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ کیاعام وخاص کے قانون اوراطلاق وتقیید کے عمومی قانون کو ان جیسے آیات اور روایات جو کسی شرعی حکم کو بیان کرنے کے لئے نہیں ہے جاری کر سکتے ہیں یا نہیں ؟آپ کو معلوم ہے کہ تخصیص کا اصلی ملاک اورمعیار خودعقلاء ہیں ،اگر کسی نے کہا ان تمام قالینوں کو لے جاؤ ،اوردو دن بعد آکر بولے کہ اس ایک قالین کو نہیں لے جانا،عقلاء کہتے ہیں کہ یہ پہلے بیان کامخصص ہے ،اسی کو ہم اس اعتقادی بحث میں جاری کرنے میں کیا مشکل ہے ،اگرہمیں کوئی روایت ملے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ مومن کے لئے سکرة الموت نہیں ہے ،تو اسے مقید قرار دینا چاہئے ،اور یہ اسی آیت کریمہ کے لئے مخصص ہوگا ۔
جب ہم روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو بعض روایات سے یہی استفاد ہ ہوتا ہے کہ سکرة الموت سب کے لئے ہے اور یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،ایک روایت یہ ہے ''لمّا حزرت الحسن بن علي الوفاة بكي» جب امام حسن علیہ السلام کے وفات کا وقت قریب ہوا اس وقت آپ نے گریہ فرمارہے تھے «فقيل يابن رسول الله أتبكي و مكانك من رسول الله (ص) مكانك الذي أنت به و قد قال فيك رسول الله(ص) ما قال و قد حججت عشرين حجّ ماشياً و قد قاسمت ربّك مالك ثلاث مرّات حتّي النعل و النعل» سائل نے امام حسن علیہ السلام سے عرض کیا :آپ کیوں گریہ کر رہے ہو؟ سب سے پہلے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے نزدیک آپ کی قدروقیمت اورعزیز ہے ،اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ رسول اکرم نے آپ کے بارے میں کیا فرمایا ہے ،آپ اور آپ کے بھائی کے بارے میں فرمایا : «الحسن و الحسين سيدا شباب أهل الجنة» اور آپ ٢٠ بار پیدل حج کر چکے ہیں «قاسمت ربّك مالك ثلاث مرّات» تین بار آپ اپنی پوری مال ومنال کو غرباء اور مساکین میں تقسیم کر چکے ہیں ،ان سب کے باوجود آپ کیوں گریہ کر رہے ہیں؟ «فقال (ع) إنّما أبكي لخصلتين لحول المطلّع و فراغ الاحّبه» آپ نے فرمایا : میرا گریہ ان مطلّع گرفتاریوں اور مشکلات کی خاطر ہے ،''حول المطلع '' سے مراد آخرت ہے یعنی قیامت ،قیامت کو مطلّع کہتے ہیں چونکہ انسان اپنے کاموں سے باخبر ہوتا ہے ، «الذي يحصل الاطلاع عليه بعد الموت»جب تک موت واقع نہ ہو جائے قیامت کے بارے میں کوئی اطلاع پیدا نہیں کر سکتے ،حول مطلّع کا معنی یہ ہے کہ خود موت ایک حقیقت ہے کہ اس سے انسان قیامت کے بارے میں اطلاع پیدا کرتا ہے ،امام فرماتا ہے کہ میں اس کی سختیوں کی وجہ سے گریہ کررہا ہوں !اگر حول مطلّع سے مراد صرف قیامت کے دن کا حساب و کتا ب ہو تو اس صورت میں ہماری بحث سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے ،لیکن اگر مطلّع سے مرا د یہ ہو کہ انسان اوپر سے نیچے کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے ،عرب اسے مطلّع کہتے ہیں ،موت بھی ایسا ہے کہ جب موت واقع ہوتی ہے تو انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا خبر ہے ؟ یعنی ہم یہاں یہ بتائیں کہ خود موت ایک ہولناک حقیقت رکھتی ہے ۔
اسی باب کے روایت نمبر ٢٧ میں ایک خوبصورت واقعہ بیان ہوا ہے کہ ؛ امام صادق علیہ السلام فرماتا ہے «إنّ عيسي بن مريم جاء إلي قبر يحيي بن زكري»حضرت عیسی علیہ السلام حضرت یحیی بن زكریا کے قبر کے کنارے آئے «وكان سأل ربّه عن يحيئه له» اورخدا سے دعا کی کہ حضرت یحییٰ کو زندہ کرے «فدعاه فأجابه و خرج إليه من القبر»حضرت عیسیٰ نے دعا کی اور خدا نے بھی اس دعا کو قبول فرمایا اورحضرت یحییٰ قبر سے نکل آئے !حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ سے فرمایا «ما تريد منّي» کیوں مجھے قبر سے باہر نکالا ہے کیا کام ہے مجھ سے ؟ «فقال أريد عن تؤنسني كما كنت في الدنيا» جس طرح دنیا میں تھا اسی طرح میرا دوست بن جاؤ،کچھ مدت میرے ساتھ رہو پھر اس کے بعد دوبارہ دنیا سے چلے جاؤ گے «فقال له يا عيسي ما سكنت عنّي حرارة الموت»اس وقت حضرت یحییٰ نے حضرت عیسی سے کہا : اے عیسیٰ ابھی تک موت کی سختیاں میرے روح اوربدن میں باقی ہے اورمجھے آرام نہیں ہے «و أنت تريد عن تعيدني إلي الدني»تم چاہتے ہو کہ میں دوبارہ دنیا میں آجاؤں «و تعود عليّ حرارة الموت» تا کہ میں دوبارہ موت کی سختیوں کو تحمل کروں ؟ یعنی حضرت یحییٰ فرما رہے ہیں کہ خود موت کی اتنی سختیاں اورسکرة ہے کہ ایک دفعہ متحمل ہوا ہوں یہی کافی ہے ،یعنی بہت ہی ہولناک اورمشکل ہے اوروہ بھی حضرت یحییٰ فرمارہے ہیں «فتركه فعاد إلي قبره» اس طرح انہوں نے حضر ت عیسیٰ کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اوردوبارہ اپنے قبر مطہر کی طرف پلٹ گئے ،معلوم ہوا کہ خود موت کی اتنی سختیاں ہیں۔
مرحوم مجلسی کا یہاں پر ایک بیان ہے فرماتا ہے :''لعل ذوق حرارة الموت انما یکون بعد استمرار تعیّش فی الدنیا و عوو التعلقات '' موت میں کیوں اتنی تپش ہے ؟ چونکہ انسان کابہت سے چیزوں سے تعلقات ہے اور قبض روح سے مراد ان تمام تعلقات کو توڑنا ہے ،حضرت یحییٰ کےکلام میں جو عبارت ہے ''ما سکنت عنّی حرارة الموت'' اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بہت وقت گزر گیا تھا تاریخ کو تو ہم معیّن نہیں کر سکتے کہ حضرت یحییٰ حضرت عیسیٰ سے کتنی مدت پہلے تھے ،یقینا بہت وقت گزرا ہے ، لیکن اس کے باوجود فرماتا ہے ''ما سکنت عنی حرارة الموت'' اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان برزخ میں وارد ہونے کے بعد کافی وقت لگتا ہے کہ اس کے بدن سے موت کی تپش ختم ہو جائے ، یہ دو روایت ابھی تک اسی چیز کو ثابت کر رہی ہے کہ سکرة الموات سب کے لئے ہے ،امام حسن کے واقعہ کے سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اوراس واقعہ سے بھی ۔
ایک اور روایت یہ ہے : «قال علي بن الحسين عليهم السلام أشدّ ساعات ابن آدم ثلاث ساعات» انسان کے لئے سخت ترین وقت ،تین وقت ہے ،اس میں پھر یہ بیان نہیں کیا ہے کہ کونسا ابن آدم ،بلکہ ابن آدم کو مطلق رکھا ہے سب کے سب اس میں شامل ہے ،جو بھی ابن آدم ہو «الساعة التي يعاين فيها ملك الموت»پہلا یہ ہے جب انسان کے بدن سے اس کا روح نکل جاتا ہے «والساعة التي يقوم فيها من قبره والساعة التي يقف فيها بين يدي الله تبارك و تعالي فإما إلي الجنة و إما إلي النار» دوسرا جب وہ محشور ہوتا ہے ،اورتیسراجب انسان خدا کے حضورمحشورہو گا ،اس وقت یا بہشت کی طرف جانا ہے یا جہنم کی طرف «ثم قال»اس کے بعد فرمایا: «إن نجوت يابن آدم عند الموت فأنت أنت و إلا هلكت»اگر موت کے وقت تم نے نجات پائی تو تمہاری عاقبت اچھی ہے لیکن اگر موت کے وقت مشکل اورسختیوں سے گزراتو تم ہلاک ہوگیا «و إن نجوت يابن آدم حين توزع في قبرك فأنت أنت و إلا هلكت»جس وقت تمہیں قبر میں رکھا جارہا ہے اس وقت تم نے اگر نجات پائی تو نجات پائی «و إن نجوت حين يحمل الناس علي الصراط فأنت أنت و إلا هلكت و إن نجوت حين يقوم الناس لربّ العالمين فأنت أنت و إلا هلكت ثم تلي و من ورائهم برزخٌ إلي يوم يبعثون».اس روایت میں ہماری مورد بحث مطلب یہ ہے کہ قبض روح انسان کےلیے شدیدترین وقت ہے یعنی اس کے لئے سکرة الموت ہے اگرچہ وہ انسان ایک اچھا انسان ہوپھربھی اس کے لئے سکرة الموت ہے ۔
ایک اورروایت یہ ہے : «عن ياسر الخادم قال سمعت الرضا (ع)»امام رضا علیہ السلام فرماتا ہے«إن أوحش ما يكون هذا الخلق في ثلاثة مواطن» ابن آدم کے لئے سخترین زمان اورمکان تین ہیں «يوم يولد و يخرج من بطن امه فيرد الدنيا و يوم يموت فيعاين الآخرة و أهلها و يوم يبعث فيري أحكاماً لم يرها في دار الدنيا و قد سلّم الله عزوجل علي يحيي في هذه الثلاثة المواطن و آمن روعته» فرمایا کہ تین جگہ ایسے ہیں کہ انسان کے لئے شدیدوحشت کا مقام ہے پہلا وہاں ہے جب انسان ملک الموت کو دیکھتا ہے،بعد میں فرماتا ہے کہ خداوند متعالی نے حضرت یحیی بن زکریا کو ان تینوں جگہوں پر امان دیا «فقال و سلامٌ عليه يوم وُلِد و يوم يموت و يوم يبعث حيّ»اس آیت کریمہ کو اس روایت کے ساتھ رکھیں جو حضرت عیسی اورحضرت یحیی کے بار ے تھی ، خداوند متعالی کے حضرت یحیی کو امان دینے کے باوجود انہوں نے حضرت عیسی سے کہا : «ما سكنت عنّي حرارة الموت».۔
حضرت عیسی کے بارے میں یہ بھی ہے«وقد سلّم عيسي بن مريم عليه السلام علي نفسه في هذه الثلاثة المواطن فقال والسلام عليّ يوم ولدت يوم اموت و يوم ابعث حيّ» کہ حضرت عیسی نے ان تینوںجگہوں کے بارے میں اپنے آپ پر سلام بھیجا ہے، یہ بھی ایک روایت کہ جو دلالت کرتی ہے کہ خود موت کی بہت سختیاں ہیں اورایسا نہیں ہے کہ بعض افراد کے لئے موت کے وقت کوئی سختی نہ ہو ، موت کی ایک ذاتی سکرة اورسختی ہے ۔
ایک اورروایت : «من صام من رجب أربع و عشرين يومه» پیغمبر اکرم فرماتے ہیں : «فإذا نزل به ملك الموت تراءا له في سورة شاب»جو بھی ماہ رجب میں ٢٤ دن روزے رکھے وہ ملک الموت کو ایک جوان کی شکل میں دیکھتا ہے«عليه حلّةٌ من ديباج اخذر» ملک الموت بہشت سے ایک شراب لے کر اس شخص کو دیتا ہے اور سکرات موت کو اس کے لئے آسان کرتا ہے ، سکرات ہے لیکن آسان کرتا ہے ایسا نہیں ہے کہ سکرات موت ہی نہ ہو ،سکرات موت ہے لیکن آسان ہے ، اسی طرح حضرت یحیی کے بارے میں جس امان کی بات ہوئی وہ بھی ایسا ہے کہ کچھ آسانی ہوگی لیکن خود سکرات ہے ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
نظری ثبت نشده است .