درس بعد

قرآن میں معاد

درس قبل

قرآن میں معاد

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآنی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/١٧


شماره جلسه : ۴

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • آیات اورروایات سے استفادہ ہوتا ہے مؤمن اورکافر کے قبض روح میں فرق ہے ،خود کفارکے آپس میں بھی اس کا اندازمختلف ہے جس طرح مؤمنون کے آپس میں مختلف طریقوں ہے ،اوران آیات اورروایات سے یھی استفادہ ہوتا ہے کہ انسان کے اعتقاد اورعمل اس کے قبض روح میں بہت مؤثر ہے ،انسان کے خلقت میں خدا کاجو قانون ہے قبض روح میں ایسا نہیں ہے کہ سب ایک جیسا ہو

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم 

الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين

ہماری گفتگو مؤمن اور کافر کے قبض روح کے بارے میں تھی ،جیسا کہ ملاحظہ فرمایا آیات اورروایات سے استفادہ ہوتا ہے مؤمن اورکافر کے قبض روح میں فرق ہے ،خود کفارکے آپس میں بھی اس کا اندازمختلف ہے جس طرح مؤمنون کے آپس میں مختلف طریقوں ہے ،اوران آیات اورروایات سے یھی استفادہ ہوتا ہے کہ انسان کے اعتقاد اورعمل اس کے قبض روح میں بہت مؤثر ہے ،انسان کے خلقت میں خدا کاجو قانون ہے قبض روح میں ایسا نہیں ہے کہ سب ایک جیسا ہو ،انسان کے خلقت میں اوردنیا میں آتے ہوئے اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ بعد میں کیا ہونے والا ہے ،مؤمن ہو گا یا کافر ، سب ایک ہی حالت میں پیدا ہوتے ہیں اسی لیے جو بچہ پیدا ہوتا ہے اسے پیدا ہوتے ہوئے کسی درد یا مشکل کا احساس نہیں ھوتا،سب کی پیدایش ایک جیسے ہیں ،لیکن قبض روح میں خداوند متعالی کی سنت اورروش مختلف ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے اعتقادات اوراعمال اس کے قبض روح میں اثر انداز ہے ۔
 
بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ والدین سے نیکی قبض روح میں آسانی کاسبب ھے ایک روایت میں امیر المؤمنین علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے فرمایا:''الْبَارُّ يَطِيرُ مَعَ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ ''جو شخص اپنے ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آئے وہ کرام البررہ کے ساتھ ہوتے ہیں ،یعنی اس کی قبض روح کرام البررہ کی قبض روح کی طرح ہے''وَ إِنَّ مَلَكَ الْمَوْتِ يَتَبَسَّمُ فِي وَجْهِ الْبَارِّ''ملک الموت اس کے پاس تبسم کرتے ہوئے آتا ہے ''وَ يَكْلَحُ فِي وَجْهِ الْعَا ق''لیکن جو شخص عاق والدین ہو،قبض روح کے وقت ملک الموت اس کے پاس  ترش رو ہو کرحاضر ہوتا ہے ۔
 
والدین سے نیکی کرنا بعض روایات کے مطابق خدا کی راہ میں جہاد سے بھی بہتر ہے ، معصوم(ع) سے وارد ایک روایت کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ سے سوال ہوا کہ انسان کو انجام دینے کا سب سے اہم کام کیا ہے ؟فرمایا :خدا کی معرفت،اس کے بعد سائل نے دوبارہ سوال کیا ''ثم'' آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کرنا ،اس کے بعد پھر سوال کیا ،تو فرمایا :خدا کی راہ میں جہاد کرنا ۔
 
ظاہری اعمال میں زندگی میں سب سے مشکل ترین کام جہاد ہے،کیونکہ انسان زندگی اورکام کاج ،بیوی بچوں کوچھوڑکرجھاد میں چلاتاہے ،لیکن اس روایت میں ہے کہ والدین سے نیکی کرنا اس سے مقدم ہے ،ایک اورروایت بھی ہے کہ شیخ صدوق نے امالی میں نقل کیا ہے ،ایک گروہ نے اسے نقل کیا ہے ،کہتے ہیں : ''كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص يَوْماً فَقَالَ رَأَيْتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ '' ایک گروہ پیغمبر اکرم کے پاس تھے کہ آپ نے فرمایا گذشتہ رات میں نےکچھ عجائب دیکھا '' فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا رَأَيْتَ حَدِّثْنَا بِهِ فِدَاكَ أَنْفُسُنَا وَ أَهْلُونَا وَ أَوْلَادُنَا'' ہم نے کہا ہماری جان و مال اور اولا آپ پر قربان ہو فرمائیں آپ نے کیا دیکھا ،تو آپ نے فرمایا''فَقَالَ رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي قَدْ أَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ لِيَقْبِضَ رُوحَهُ '' ایک شخص کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی قبض روح کرنے کے لئے آیا تھا ''فَجَاءَهُ بِرُّهُ وَالِدَيْهِ فَمَنَعَهُ مِنْهُ ''لیکن اس نے ماں باپ کے حق میں ایک نیکی کی تھی ،جس کی وجہ سے اس کے قبض روح میں تأخیر ہوئی ،جس طرح صلہ ارحام کے بارے میں ہے کہ یہ انسان کے عمرکودراز کرتا ہے ،تو والدین سے نیکی کرنا سب سے بالاترین صلہ رحم ہے لھذایہ عمر درازی کا سبب ہے ۔
 
اصول کافی میں مرحوم کلینی نے ایک باب کو کتاب الجنائز قراردیا ہے ،اس میں بہت اچھی روایات ہیں انسان ان کو دیکھ کر حسرت کرتا ہے کہ کیوں انسان ان روایات سے غافل ہیں اوران کی طرف توجہ نہیں کرتے ،دفن مؤمن کے بارے میں اتنے ساری دعائیں اوراذکاراورمستحبات ذکر ہوئی ہیں کہ ہم ان میں سے اکثر سے غافل ہیں اس کتاب الجنائز میں ایک باب ''مؤمن اور کافر کے قبض روح کے بارے میں ہے
 
سدیر صیرفی امام صادق علیہ السلام سے عرض کرتا ہے  ''جُعِلْتُ فِدَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ هَلْ يَكْرَهُ الْمُؤْمِنُ عَلَى قَبْضِ رُوحِهِ ''میں آپ پر فدا ہوجاؤں یابن رسول اللہ !کیا مؤمن اپنے قبض روح سے پریشان ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا:'' قَالَ لَا وَاللَّهِ''خدا کی قسم کھا کر فرمایا : نہیں!'' إِنَّهُ إِذَا أَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ لِقَبْضِ رُوحِهِ جَزِعَ عِنْدَ ذَلِكَ ''جب ملک الموت اس کی قبض روح کے لئے آتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ملک الموت آیا ہے تا کہ اس کی قبض روح کرے ،تو وہ گریہ و فغان اورچیخ وپکارکرتا ہے،اس وقت ملک الموت مؤمن سے کہتا ہے :'' فَيَقُولُ لَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ يَا وَلِيَّ اللَّهِ لَا تَجْزَعْ ''چیخ وپکارمت کرواورپریشان نہ ہو '' فَوَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً ص ''اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر کو رسالت پر مبعوث فرمایا ''لَأَنَا أَبَرُّ بِكَ وَ أَشْفَقُ عَلَيْكَ مِنْ وَالِدٍ رَحِيمٍ لَوْ حَضَرَكَ ''میں ایک مہربان باپ سے زیادہ تمہارے لیے شفیق ہوں،ایک باپ اپنے بچے کی نسبت کتنا مہربان ہے،میں اس سے بھی زیادہ مہربان ہوں ،اس کے بعد ملک الموت کہتا ہے :''افْتَحْ عَيْنَكَ فَانْظُرْ''اپنی آنکھوں کو کھولو او ردیکھ لو،گویا اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آنکھوں کو کھولنے اور دیکھنے کاکہہ کر قبض روح انجام پاتا ہے لیکن کافراورفاسق انسان کے قبض روح بہت سخت ہے،لیکن مؤمن کا اسی بات کے ساتھ قبض روح ہو جاتی ہے ''افْتَحْ عَيْنَكَ فَانْظُرْاپنی آنکھوں کو کھول کردیکھو:'' قَالَ وَيُمَثَّلُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ الْأَئِمَّةُ مِنْ ذُرِّيَّتِهِمْ ع فَيُقَالُ لَهُ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ وَ الْأَئِمَّةُ ع '' جب وہ دیکھتا ہے تو رسول اللہ ،امیر المؤمنین ، فاطمة الزہراء،امام حسن اورامام حسین علیہم السلام اورباقی آئمہ سامنے نظر آتے ہیں لیکن اس نے پہلے انھیں نہیں دیکھا ہے لہذا اسے بتایا جاتا ہے یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ ہے ،یہ امیر المؤمنین ہے ،یہ حضرت فاطمہ الزہراء ہے یہ امام حسن ہے ،یہ امام حسین ہے اسی طرح باقی آئمہ علیہم السلام ۔
 
یہاں پریہ بھی بتاتے چلوں کہ شیعہ اس مطلب کے معتقد ہیں کہ انسان کے قبض روح کے وقت وہ پیغمبر اکرم اورآئمہ طاہرین کو دیکھتا ہے تویہ بات قرآن کریم کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے ،کوئی یہ فکر نہ کریں کہ شیعوں نے اسے اپنی طرف سے گھڑلیا ہے ، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کریم کی آیت کریمہ سے استفادہ ہوا ہے کہ انشاء اللہ اسے آگے بیان کریں گے ۔
 
''فَيَفْتَحُ عَيْنَهُ فَيَنْظُرُ فَيُنَادِي رُوحَهُ مُنَادٍ مِنْ قِبَلِ رَبِّ الْعِزَّةِ '' یہ مؤمن جب ان حضرات کو دیکھتا ہے اس وقت ایک منادی آواز دیتا ہے ''فَيَقُولُ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ إِلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ ارْجِعِي''قرآن میں اس ارجعی سے مراد کس کی طرف رجوع کرنا ہے ؟محمد اوران کی اہلبیت کی طرف''‏ رَبِّكِ راضِيَةً بِالْوَلَايَةِ مَرْضِيَّةً بِالثَّوَابِ فَادْخُلِي فِي عِبادِي '' یعنی اے انسان تم نے ایک عمردنیا میں ایمان اورعمل صالح میں گزاری ہے ،اب تمہارے لیے جزاء یہ ہے کہ تو ہمارے بہترین بندوں کے درمیان قرارپائے گا،یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے آل کے درمیان ''وادخلی جنتی'' اورمیرے جنت میں داخل ہو جاؤ''فَمَا شَيْ‏ءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنِ اسْتِلَالِ رُوحِهِ وَ اللُّحُوقِ بِالْمُنَادِي'' اسْتِلَالِ سے مراد کسی چیز کو بہت ہی رفق ومدارا کے ساتھ لے لینا ہے ،کسی چیز کو آہستہ آہستہ کہیں سے نکالنے کو اسْتِلَالِ کہتے ہیں ،اس روایت میں امام صادق علیہ السلام فرماتا ہے ، مؤمن جب یہ منظر دیکھتا ہے تو اس کے پاس اس سے پسندیدہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اس کی روح اس کے بدن سے نکل جائے '' فَمَا شَيْ‏ءٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنِ اسْتِلَالِ رُوحِهِ وَ اللُّحُوقِ بِالْمُنَادِي''
 
اب ہم آتے ہیں قرآن کریم کی طرف : وَلَوْتَرى‏ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُواالْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ وَذُوقُواعَذابَ الْحَريقِ  اسی طرح یہ آیت بھی ہے فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ  ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ وَ كَرِهُوا رِضْوانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُم  ان دونوں آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ کئی فرشتے آتے ہیں اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں ،شاید یہ بھی انسان کے درجات کے لحاظ سے ہو،جس طرح اگر کسی چوریا کسی زندانی کوپکڑنا ہوتوکبھی ایک نفرکافی ہے اورکبھی کئی افراد کی ضرورت ہوتی ہے ! لیکن فرشتوں میں یہ بات نہیں ہے کیونکہ وہ مظہر قدرت الہی ہوتے ہیں ، لیکن انسان کی اگر احترام کرنا چاہئے تو ایک گروہ اس کی استقبال کے لئے آتے ہیں الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ  اورجو انسان کافر یا مشرک یا منافق اور گناہگار ہوتے ہیں ان کے لئے بھی کئی افراد آتے ہیںيَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ۔
 
الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ یہ متقین کے اوصاف میں سے ایک ہے اس آیت میں متقین کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں،جب فرشتے ان کی قبض روح کرتے ہیں ،یہاں پر تین مطالب ہیں :طییبین ،یقولون سلام علیکم ،تیسرا :ادخل الجنة بما کنتم تعملون ،ان تینوں کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے کہ دیکھیں ان سے کیا مراد ہے ؟ تفسیر وں میں طییبین کے لئے چھ(٦) احتمال ذکر کیے ہیں:
 
١۔طییبین یعنی وہ لوگ جو شرک سے پاک ہوں '' تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ ''یعنی متقین وہ ہیں جب فرشتے ان کی قبض روح کرتے ہیں تووہ شرک سے پاک ہیں ۔
 
٢۔ اس معنی میں ہے کہ ان کے افعال وگفتارپاک ہیں ،یعنی اب تک دنیا میں جو کام انجام دیئے ہیں وہ پاک و پاکیزہ تھے ۔
 
٣۔ طییبین ان افراد کے نفوس کی صفت ہے ،یعنی ان کی نفوس خدا کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے طیب ہوجاتے ہیں ''طییبن نفوسہم بالرجوع الی اللہ تبارک وتعالی '' پہلے اوردوسرے معنی میں ہم نے یہ بتایا تھا کہ طییبن ان کے اعتقاد کے مطابق ہے یعنی ان کے اعتقاد پاک ہیں ،شرک سے پاک ہے ، دوسرے معنی میں بتایا ان کے اعمال پاک ہیں لیکن اس تیسرے معنی میں ہم یہ بتاتے ہیں کہ ابھی ان کو ایک چیز ملنے والی ہے اب جب کہ دنیا کو چھوڑ دیا ہے اب وہ طیب کے مرحلہ پرپہنچ جاتے ہیں ،اور طیب کی انتہاء رجو ع الی اللہ ہے ،یعنی جب لقا ء الہی واقع ہوتا ہے تو انسان مؤمن طیب کے مقام تک پہنچ جاتا ہے ،پہلے بھی طیب تھے لیکن وہ طہارت اور پاکی مقدمات تھیں ،اور آخرین طیب اللہ تک پہنچنا ہے ۔
 
یہاں یہ بات بھی بتاتے چلوں کہ ہمارا اصل خدا وند متعالی سے ہے ، وہی فطرت  الہی ہے ، ہماری ظاہراورباطن دونوں خداوند متعالی سے ہے ،اگر ہم جس اصل کے ساتھ وجود میں آئے ہیں ،اسی طریقہ پرخدا کی طرف پلٹ جائے تو طیب ہیں ،لیکن اگر دنیا میں آنے کے بعد شیطانی رنگ کے ساتھ خدا کی طرف پلٹ جائے تو یہ طیّب نہیں ہے ۔
 
٤۔طیّب یعنی مطمئن ،یعنی آسودہ حال ،جس چیز کے بارے میں خدا نے وعدہ کیا ہے اس کے بارے میں مطمئن ہے ،جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے ابھی  ان سے ملاقات کا وقت ہے ۔
 
٥۔ طییبین یعنی صالحیں ،یعنی یہ لوگ صالح افراد ہیں ۔
 
٦۔ طییبین کا معنی یہ ہے ''ان تکون وفاتہم طیّبة سہلة لاصعوبة فیہا ولا الم ''یعنی ان کے لئے مرنا آسان ہے اس وقت ان کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے اورنہ کوئی درد اورسختی ہے ،بہت ہی آسانی سے اس کا روح اس کے بدن سے نکل جاتا ہے ۔
 
اب ان چھ احتمالوں میں سے کونسا احتمال صحیح ہے ،البتہ ان میں سے بعض کو بعض دوسرے میں داخل کر سکتے ہیں ۔
 
ہماری بحث سے مناسب یہی چھٹا احتمال صحیح ہے،یعنی خداوند متعالی یہ فرمانا چاہتا ہے کہ متقین کافرین اورمشرکین کے قبض روح میں فرق ہے ،اگر اس آیت کریمہ کو سورہ مبارک محمد کی آیت ٢٧ کے ساتھ رکھیں تو یہ طییبین توفی کے لئے ایک صفت ہے ''تتوفاہم الملائکة '' بعض قرائت میں ''یتوفاہم ''پڑھا گیا ہے ،فرشتے ان کی قبض روح کرتا ہے کہ یہ طییبین ہیں یعنی ان کی وفات پاک و پاکیزہ ہے ،قبض روح کرتے وقت ان کے لئے کوئی درداورسختی نہیں ہے ،اگر ہم اس آیت کریمہ کو اس طرح معنی کریں تو یہ بہترین دلیل ہے کہ مؤمن کے قبض روح میں اسے کوئی درد والم اورسختی نہیں ہوتی ہے ۔
 
ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آیت شریفہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین خصوصیات وجودمیں آناچاہتا ہے ،وفات پانے کے بعدیا جب وفات پانا شروع ہوتویہ تینوں خصوصیات شروع ہوتی ہیں ،ہماری اصطلاح میں مناسبت حکم و موضوع ہے ،آیت کریمہ کی ابتدا سے مناسبت یہ ہے کہ طییبین یعنی طییبین توفیتہم یعنی طییبن توفیہم ،ان کی وفات طیب و طاہرہے ،یعنی انہیں کوئی درداورپریشانی نہیں ہے اور کسی درد کا احساس نہیں کرتے ، کیا خوش قسمت ہیں متقین ۔

 
وصلی اللہ علی محمد و آلہ الطاہرین

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .