درس بعد

قرآن میں معاد

درس قبل

قرآن میں معاد

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآنی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/٢٥


شماره جلسه : ۸

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • ‘‘إِنَّ الَّذينَ ارْتَدُّوا عَلى‏ أَدْبارِهِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ أَمْلى‏ لَهُمْ’ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قالُوا لِلَّذينَ كَرِهُوا ما نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطيعُكُمْ في‏ بَعْضِ الْأَمْرِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرارَهُم’’ اس آیت کریمہ کے ذیل میں ایک روایت نقل ہے:''نزلت فی الذین نقضواعہد اللہ فی امیرالمؤمنین ''الشیطان سوّل لہم '' ''ای حیّن لہم ''شیطان نے اس عہدوپیمان توڑنے کوان کے لئے بہت آسان بنا لیا

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

 الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين 


همارابحث اس ميں تها که مومن کا روح اس کي بدن سے نکلنے اورکافر کا روح اس کے بدن سي نکلنے ميں بہت زياده فرق ہے،اوراس معنی پر دلالت کرنی والی آيات کريمه کوھم نے پہلے بيان کيا اوراسي طرح کچه روايات بهي تهيں جواس معنی پر دلالت کرتيں تهيں که بيان هوا۔

ان میں سے ایک یہ آیت کریمہ ہے:‘‘فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُواماأَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوارِضْوانَهُ’’ اس آیت کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی اوربیان ہواکہ ''ذلک''علت کے طورپرذکرہواہےاورآیت کریمہ کامعنی صرف کافروں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ جو بھی خدا کو ناراض کرے وہ اس میں شامل ہے ۔

 اس آیت سے ما قبل آیات یہ ہیں‘‘إِنَّ الَّذينَ ارْتَدُّوا عَلى‏ أَدْبارِهِمْ مِنْ بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى الشَّيْطانُ سَوَّلَ لَهُمْ وَ أَمْلى‏ لَهُمْ’ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قالُوا لِلَّذينَ كَرِهُوا ما نَزَّلَ اللَّهُ سَنُطيعُكُمْ في‏ بَعْضِ الْأَمْرِ وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرارَهُم’’کتاب بحار الانوار میں اس آیت کریمہ کے ذیل میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جوعلی بن ابراہیم کی تفسیر سے نقل ہے روایت قابل توجہ ہے، تفسیرعلی بن ابراہیم کے بارے میں ہم نے تفصیلی گفتگو کی ہے کہ یہ تفسیر کس کا ہے؟آیا یہ علی بن ابراہیم کی ہے یا ابی الجارود کی ہے یاعلی بن ابراہیم کے شاگرد کی ہے؟اس بارے میں تفصیلی گفتگوہماری ویب سائٹ پرموجودہے،روایت یہ ہے کہ آیت کریمہ‘‘إِنَّ الَّذينَ ارْتَدُّواعَلى‏ أَدْبارِهِمْ مِنْ بَعْدِماتَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى’’کے ذیل میں نقل ہے ''نزلت فی الذین نقضواعہد اللہ فی امیرالمؤمنین''یہ آیت کریمہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہےجنہوں نے امیرالمومنینعلیہ السلام کے بارے میں خداکے عہدوپیمان کوتوڑا،یہاں پرتفسیری روایات کے بارے میں ایک مطلب بیان کروں وہ یہ ہے کہ کبھی روایات میں مصداق کے عنوان سے کچھ مطلب ذکرہوتاہے لیکن یہاں اس آیت کے ذیل میں موجودروایت میں یہ نہیں بتارہا کہ یہ لوگ اس کے مصداق ہیں بلکہ اس میں ہے کہ یہ آیت خودان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے،ایسانہیں ہے کہ آیت کریمہ کاایک کلی معنی پہلے موجود ہواور اس میں سے ایک مصداق امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کے عہدوپیمان کو توڑنے والے ہوں،ایسانہیں ہے،چونکہ اس روایت میں ہے''نزلت فی الذین نقضواعہداللہ فی امیرالمؤمنین علیہ السلام''جن لوگوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کو قبول نہیں کیا یہ آیت کریمہ ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے''الشیطان سوّل لہم ''روایت میں ہے ''ای حیّن لہم ''یعنی شیطان نے اس عہدوپیمان توڑنے کوان کے لئے بہت آسان بنا لیا،اس کے بعد ''الشیطان '' کے مصداق کے بارے میں بتاتا ہے ''وھو فلان'' فلان کا معنی بیان نہیں کرتا کہ اس سے مراد کون ہے؟لیکن اس سے مرادسب کے لئے واضح ہے!''واملاای بسط لہم املا یکون مماقال محمد شیئا''ہم نے پہلے بتا دیا کہ ''املا ''کا معنی ہے جس کے لمبی آرزوئیں ہو۔

لیکن یہاں پرجوتفصیل بیان ہوا ہے اس کے مطابق شیطان کو''املالہم ''کا مصداق ذکر کیا ہے''بسط لہم ان لایکون ممّاقال محمد شیئاً ''یعنی ایسا انہوں نے نقشہ کیھنچا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے بارے میں جوجوبیان فرمایا تھا کوئی باقی نہ رہ جائے ۔

‘‘ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قالُوا لِلَّذينَ كَرِهُواما نَزَّلَ اللَّهُ’’ یہ بعد والی آیت ہے کہ فرماتا ہے :'' ای یعنی امیر المؤمنین ، سَنُطِيعُكُمْ فِي بَعْضِ الْأَمْر یعنی فی الخمس عن لا یردّوہ الی بنی ہاشم ''یہ لوگ دوسروں سے کہتے تھے ہم تمہارے ساتھ ہیں آؤآپس میں مل کرایسا کام کر لیتے ہیں کہ یہ خمس اس کے بعد سے بنی ہاشم کو نہ ہاتھ میں نہ آے‘‘وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِسْرارَهُمْ‏ قال الله تعالى:فَكَيْفَ إِذاتَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ بنكثهم وبغيهم وإمساكهم الأمرمن بعدأن أبرم عليهم إبراما’’فرشتے کیوں ان کے چہروں پرمارتے ہیں؟چونکہ انہوں نے عہدوپیمان کوتوڑا،کیوں قبض روح کے وقت ان کے سرینوں پر مارا جاتا ہے؟ اس لئے کہ جو چیز ان کے پاس ثابت تھی اسے بیان کرنے سے گریز کیا،خدافرماتا ہے کہ جب تم نے ایسا کیا ہے تو''إذا ماتواساقتهم الملائكة إلى النار،فيضربونهم من خلفهم ومن قدامهم ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُواماأَسْخَطَ اللَّه''مااسخط اللہ یعنی ان کی ولایت جوغاصبی طورپر پیغمبراکرم ۖ کے ممبرپربیٹھ گیا،اس روایت کو ذکر کرکے یہ بیان کرنا چاہ رہا ہوں کہ آیت کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہےجوبھی امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کو قبول نہ کرے اورناحق پیغمبر کے جانشین بننے والوں کی ولایت کو قبول کرے یہ لوگ بھی ''اتبعواما اسخط اللہ '' کے مصادیق میں سے ہیں ۔

مااسخط اللہ سے کیا مراد ہے؟یعنی فلان وفلان،پہلے اوردوسرے کی ولایت کو قبول کرے ''وظالمی امیر المؤمنین علیہ السلام''اسی لیے آیت کریمہ کے آخرمیں فرماتا ہے :‘‘فاحبط اعمالہم’’ان لوگوں نے چونکہ امیر المؤمنین علیہ السلام کی ولایت کا انکار کیا ہے لہذا پہلے جو بھی اعمال انجام دیئے ہیں نماز،روزہ،حج ،زکات،جہاداورہروہ کام جو پیغمبر اکرم ۖ کے دور میں انجام دیئے ہیں،سب کے سب ضایع ہوجائے گا اورختم ہو جائے گی۔

آلوسی (١٢٧ قمری میں فوت ہوا ہے)کی تفسیر روح المعانی ) یہ تفسیر  اہل سنت کی اہم تفاسیر میں سے ایک ہے (کی جلد١٣میں ابن مسعود سے نقل ہے وہ کہتا ہے:''ماكنا نعرف المنافقين على عهدرسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و آله الا ببغض على بن ابى طالب عليه السّلام '' پیغمبر اکرم ۖ کے زمانہ میں منافق ہونے کامعیاراور اس کی علامت حضرت امیر المؤمنین عليه السّلام سے بغض ودشمنی رکھنا تھا،اس کے بعد لکھتا ہے:اسی روایت کو ابن عساکر نے ابن سعید سے بھی نقل کیا ہے اس کے بعد لکھتا ہے:''و عندي أن بغضه رضي اللّه تعالى عنه من أقوى علامات النفاق''کہتا ہے میرے نزدیک امیر المؤمنین  سے بغض نہ صرف نفاق کی علامتوں میں سے ہے بلکہ سب سے بڑی علامت یہی ہے'' فإن آمنت بذلك فيا ليت شعري ماذا تقول في يزيد''آلوسی کہتا ہے:اگر مجھ سے اس بات کو قبول کرتے ہوکہ امیرالمؤمنین عليه السّلام  سے دشمنی نفاق کی سب سے بڑی علامت ہے تو یزید کے بارے میں کیا بتاتے ہو؟''أكان يحب عليا كرم اللّه تعالى وجهه أم كان يبغضه'' یزید امیرالمؤمنین سے دشمنی کرتا تھا یا اسے محبت کرتا تھا؟'' و لا أظنك في مرية من أنه عليه اللعنة كان يبغضه''یہاں پرآلوسی نے یزید پرلعنت بھیجا ہے،آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت وہابی کتنے پست ہوگئے ہیں کہ ان میں سے بعض کے ہاں یہ مورد بحث و گفتگوہے کہ کیا ہم یزید پر لعنت کر سکتے ہیں یا نہیں؟

پہلے کہتے ہیں،اس میں اشکال ہے اس کے بعد کہتا ہے؛جایز نہیں ہے ۔اس کتاب میں آلوسی کہتا ہے تمہیں کوئی شک نہیں ہے یزید علیہ اللعنة '' كان يبغضه رضي اللّه تعالى عنه أشد البغض و كذا يبغض ولديه الحسن و الحسين على جدهما و أبويهما و عليهما الصلاة و السلام''امام علی  اور ان کے دو فرزندوں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام سے دشمنی کرتا تھا ،اس کے بعد لکھتا ہے '' كما تدل على ذلك الآثار المتواترة ''۔
اس روایت کوتفسیر روح المعانی میں اسی آیت کے ذیل میں ذکرکیا ہے،اسی طرح کی روایت کوہم نے بحاراوردوسری کتابوں سے نقل کیا تھا،مثلاً مرحوم فیض نے صافی  میں روضة الواعظین سے نقل کرتا ہے کہ امام باقر علیہ السلام سے آیت کریمہ‘‘اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ وَ كَرِهُوا رِضْوانَه’’ کے بارے میں سوال کیا ،تو آپ  نے فرمایا :''کرہواعلیّا امر اللہ بولایتہ''یہ لوگوں نے امیر المؤمنین علیہ السلام جن کی ولایت کے بارے میں خدا نے حکم کیا تھا دشمنی کرتے تھے ،اس کے بعد ما اسخط اللہ کو بھی ذکر کرتا ہے ۔

نتیجہ
 
آیت کریمہ سے ہم یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ جوبھی دنیا میں کوئی ایسا کام انجام دے جو خدا کی ناراضگی کا سبب ہواس کاپہلااثراس کے قبض روح کے وقت معلوم ہوجائے گا،اور اس وقت کی سختیوں کی مختلف درجات اورمراتب ہیں جس طرح خداوند متعالی کے غضب اورناراضگی کے درجات اورمراتب ہیں،امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت کا انکار کہ خدانے پیغمبر اکرم صلّى اللَّه عليه و آله سے فرمایا اگر اس کا اعلان نہ کرے تو گویا رسالت کو ہی انجام نہیں دیا ہے،اس کی مخالفت خدا کی ناراضگی کا سب سے اہم درجہ ہے اور اس کے بعد دوسرے اعمال کہ ہر ایک کے مختلف درجے اور مراتب ہیں ۔

اب ہم یہ بحث شروع کریں گے کہ آیات اورروایات سے مؤمن اورکافر کے قبض روح کی کیفیت معلوم کریں کہ یہ کیسے ہے؟کیاہم انہی آیات کے ظاہرسے جوظالمین،کافرین’ منافقین اوران کے تابعین کے بارے میں ہیں یہ بتا سکیں گےکہ ان کی قبض روح بہت شدیداورسخت ہیں،کہ اس کے مقابلے میں مؤمنین کی قبض روح آسان ہے‘‘الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبين’’ہم نے اس طیّبین کے بارے میں تفصیلی گفتگوکیا ہے،آیا ایسا ہی ہے ؟یا ممکن ہے کہ ان روایات کو دیکھ کرانسان کے ذہن میں کچھ سوال اٹھے،شایدابتدائی نظر میں روایات کے درمیان تناقض بھی نظر آئے ! کیا ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ موت ہرانسان کے لئے سخت ہے،فرق نہیں مومن ہویاکافر،ہم یہ بتائیں کہ موت ایک سخت حقیقت ہے مومن کے لئے بھی اورغیرمومن کے لئے بھی لیکن ان کے لئے ایک اضافی سختی بھی ہے کہ ‘‘يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ’’یہ کافروں اورمنافقوں کے لئے ہے ،مومن کے لئے یہ عذاب نہیں ہے،لیکن خودقبض روح بہت سخت ہے،روایات میں پیغمبر اکرم ۖ کی سیرت کے بارے میں نقل ہے کہ آنحضرت ۖ احتضار کے وقت پانی کا کوئی برتن اپنے پاس رکھے ہوئے تھے اورمسلسل اس میں ہاتھ ڈال کراپنے مبارک چہرہ پررکھتے تھے اور''لاالہ الا اللہ '' تکرارفرمارہے تھے،اورفرماتے تھے :''ان للموت سکرات'' موت کی سختیاں ہے ،یعنی ان سختیوں میں انبیاء بھی شامل ہیں ،یعنی آنحضرت پانی میں ہاتھ ڈال کر اور''لا الہ الا لالہ '' کی ذکر کو پڑھ کر اسے اپنے لئے آسان کرنا چاہتے تھے اوراس طرح موت کے لئےتیار ہوئے ۔

امیر المؤمنین  نہج البلاغہ  میں فرماتے ہیں :''ان للموت لغمرات ''موت کی سختیاں ہیں ، یہاں پرمؤمن اورکافر کے موت میں فرق نہیں رکھاہے،موت کی سختیاں ہیں،ایسی سختیاں جو پورے بدن پرپھیل جاتی ہے،بدن کے ایک حصّہ پر دردہوتی ہے لیکن سختیاں ایسی ہیں جوپورے بدن پرعارض ہوتی ہے،بعد میں فرماتا ہے :'' هي أفظع من ان تستغرق بصفة '' ایسی سختی جواپنی شدت میں بیان کی حدوں میں نہیں آسکتی ہیں ''اوتعتدل علی عقول اہل الدنیا''اور اہل دنیا کی عقلوں کے اندازوں پر پوری نہی اتر سکتی ہیں ،فرماتے ہیں: حقیقت موت کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس ایسے الفاظ نہیں کہ دنیا کے عقول اسے سمجہ سکے ،مثلاً یہ بتا دیں کہ درد کی ٢٠درجہ ہے ،اس کا درد اس چیز سے مارنے کی درد کی طرح ہے ،کچھ درد اورسختیاں ایسی ہیں کہ انسان اس کااندازہ لگا سکتے ہیں مثلاً یہ بتادیں کہ اس کا درد دس پیٹنے کی طرح ہے ،اس طرح ہے کہ گویا انسان کو کسی چوٹی سے نیچے گرادیاہو،فرماتے ہیں کہ موت کی سختیوں کی کوئی اندازہ نہیں ہے کہ جسے ہم اہل دنیا کے ترازوں سے اندازہ لگا سکے ۔

مناسب ہے ہم یہاں پراس آیت کو بیان کریں‘‘وَ جاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحيدُ’’ اورموت کی بیہوشی ایک حقیقت بن کر آگئی ''بالحق '' ''جائت'' سے متعلق ہے یعنی موت کی یہ بیہوشی حقیقتاً آئے گی ،یہ ایک مسلم اورناقابل تغییرمطلب ہے کہ موت کی سختیاں ہے‘‘ذلِكَ ما كُنْتَ مِنْهُ تَحيدُ’’خداوند متعالی فرماتا ہے :یہ وہی چیز ہے جس سے تو فرار کرتا تھا''معلوم ہوتا ہے کہ موت ایک بیہوش کرنے والی حقیقت ہے،یعنی اس قدر شدید ہے کہ انسان کا عقل اسے درک نہیں کرسکتا ،جب کوئی شراب پیتا ہے اورمست ہو کر کچھ بھی معلوم نہیں یوتااسی طرح موت کا درداتنا زیادہ ہے کہ مست اور بے ہوش ہوجاتا ہے اورکچھ پتہ نہیں چلتا،البتہ یہ بھی ہے کہ انسان کبھی لذت میں بھی مست ہوجاتا ہے،پس مست ہونے کی مختلف صورتیں ہیں ، لیکن ان سب میں حیران ہونا ،پریشان ہونا ہے یعنی موت میں ایسی خصوصیات ہیں کہ انسان کو پتہ ہیں نہیں چلتا کہ کیا ہورہا ہے ، آخرایسا کیوں ہے؟موت کی طبیعت ہی ایسی ہے،جب ملک الموت قبض روح کرنا چاہتا ہے تو یہ ایک ایسی حالت ہے جو انسان کے لیے پیش آتا ہے ،ابھی تک کوئی ایسی حالت نہ تھی،اورانسان اب تک اس کو تصورہی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کیسے ہوگا ؟بعض روایات میں ہے کہ حتی کہ بعض اولیاء الہی بھی موت سے ڈرتے تھے ،یہ اس لیے ہے کہ دنیا کی تصوروں میں سے کسی تصورسے قابل تصورنہیں ہے،اسی لیے''سکر '' استعمال ہوا ہے ۔

سکرة الموت ۔ موت ہی ایسی ہے ،یا انسان اسے ایسادیکھتا ہے،ایسی حالات جسے اس نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا،عجیب موجودات جسے ابھی تک نہیں دیکھا ہے،ایک دوسرا جہاں جسے ابھی تک نہیں دیکھا ہے ۔

عالم برزخ کے بارے میں موجودروایات میں ہے کہ جب کوئی اس دنیا سے چلا جاتا ہے تواہل برزخ کو پتہ چلتا ہے کہ فلان بھی اس عالم میں آیا ہے لیکن وہ خود چونکہ اس راستہ کو طے کیےہوئے ہوتے ہیں لہذا وہ لوگ آپس میں بولتے ہیں ابھی اس کے پاس نہ جائیں ،اس کو کچھ مدت چھوڑدیں تا کہ اس حالت کی عادت ہوجائے ،اگر اس کے پاس آئے تو بھی کوئی فایدہ نہیں ہے؟کیونکہ اگرکوئی غرق ہورہاہواوراسے باہرلائے تو اسے پتہ نہیں چلے گا کہ کس نے اس کی مدد کی ،کون اس کے پاس آئے اورکون نہیں آئے ؟

خود قبض روح سکرہ(بے ہوش کرنے والی) ہے مشکلات اورسختیوں کودیکھ کروہ بیہوش ہو جاتا ہے،یامثلاًجولوگ دنیا پرست ہیں وہ جب یہ دیکھتا ہے کہ سب چیزوں سے وہ جدا ہورہا ہے اسے دیکھ کر وہ بیہوش ہو جاتا ہے؟

ہماری گفتگو یہ ہے کہ کیا موت میں ذاتاً کچھ سختیاں ہیں کہ سب کے سب ان سختیوں کو دیکھتاہے ؟پیغمبر،آئمہ،اولیاء خدا،مومن سے لے کرایمان کے لحاظ سے ضعیف لوگوں تک ،کہ سب کو یہ مشکلات ہیں،قرآن کریم کی آیت سے یہی استفادہ ہوتاہے ‘‘جائت سکرة الموت’’اس صورت میں مومن اورکافرمیں کیا فرق ہوا؟فرق یہ ہے کہ ظالموں کوسکرة الموت کے علاوہ غمرات بھی ہے ،غمرات بہت سخت مشکلات ہیں ،اوراس غمرات کے علاوہ انہیں چہروں اورسرینوں پرمارنا بھی ہے ۔
یاایسا نہیں ہے بلکہ انبیاء اوراولیاء کے لئے سکرة الموت نہیں ہے،بلکہ ان کے لئے موت ایک جہاں سے دوسری جہاں میں جانااورایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال ہونا ہے کہ بعض روایات سے یہی استفادہ ہوتا ہے ۔

جابر امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتا ہے '' «الناس اثنان: واحد أراح، و آخر استراح، فأمّا الذي استراح فالمؤمن إذا مات استراح من الدنيا و بلائها''پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا جو لوگ دنیاسے چلے جاتے ہیں ان کی دوقسمیں ہیں ایک اراح ہے اوردوسرااستراح ،استراح یعنی راحت اورآرام ہونا ،مومن کودنیا اوردنیا کی بلاؤں سے چھٹکاراملتا ہے اورراحت ہوجاتا ہے ،لیکن ''و اما الذی اراح '' وہ جوآسودہ کرتا ہے :''فالكافر إذا مات أراح الشجر و الدواب و كثيرا من الناس'' کافرجب مرجاتا ہے توشجروجانوراوربہت سارے انسانوں کو راحت ملتی ہے ،معلوم ہوتا ہے کہ کافرجب دنیا میں ہوتاہے تو وہ تمام موجودات عالم کے آزارواذیت کا سبب ہے جب یہ مرجاتاہے توموجودات عالم سکون پاتا ہے  ۔

ایک اورروایت محمد بن عطیہ کی روایت ہے جسے اس نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے ''قال رسول اللہ :الموت کفارۃ لذنوب المومنین'' موت خودکفارہ ہے،یہ بھی موید ہے کہ موت کی سختیاں ہیں اورکچھ روایات بھی ہیں کہ موت انسان کے گناہوں کے معاف ہونے کاسبب ہے،اگریہ مغفرت کا سبب ہے توانبیاء اوراولیاء کے لئے کیسا ہے؟ان کی تو کوئی گناہ نہیں ہے؟اس بارے میں مرحوم مجلسی نے ٢٥ روایات نقل کی ہیں کہ انشاء اللہ ان میں سے بعض اوران سے حاصل ہونے والے نتیجہ کو بیان کریں گے ۔

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .