درس بعد

قرآن میں معاد

درس قبل

قرآن میں معاد

درس بعد

درس قبل

موضوع: قرآنی دروس


تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/١٧


شماره جلسه : ۷

PDF درس صوت درس
چکیده درس
  • آیاکافراورمشرک کا یہی ظاہری بدن ہے جس پرماراجاتا ہے؟ یانہیں بلکہ وفات پانے کے بعدہے اوریہ ''وجوہ ''اور''ادبار''روح کے بارے میں ہے،وہاں پریہ عرض ہوا کہ آیت شریفہ کاظاہریہ ہے کہ کفاراورمشرکین کی وفات پانے کی کیفیت یہ ہے کہ فرشتے انہیں مارمارکران کی جانیں نکل جاتی ہیں۔

دیگر جلسات

بسم الله الرحمن الرحيم

 الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
 


 
‘فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ ’ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ وَ كَرِهُوا رِضْوانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمالَهُم ’’ ہماری گفتگو اس آیت کریمہ کے بارے میں تھی،بحث اس میں تھی کہ‘‘يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ’’سےکیامرادہے؟بیان ہواکہ اس‘‘وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ’’سے مراد ظاہری چہرہ اورنشیمن گاہ نہیں ہے،بلکہ یہ کنایہ ہے پورے بدن کے لئے،یعنی پورے بدن پرماراجائے گا اوربدن میں کوئی ایسا حصہ نہیں بچے گا جہاں مارا نہ ہو۔
 
اس کے بعدیہ گفتگوتھی کہ آیاکافراورمشرک کا یہی ظاہری بدن ہے جس پرماراجاتا ہے؟ یانہیں بلکہ وفات پانے کے بعدہے اوریہ ''وجوہ ''اور''ادبار''روح کے بارے میں ہے،وہاں پریہ عرض ہوا کہ آیت شریفہ کاظاہریہ ہے کہ کفاراورمشرکین کی وفات پانے کی کیفیت یہ ہے کہ فرشتے انہیں مارمارکران کی جانیں نکل جاتی ہیں۔
 
اب یہاں پربعض روایات میں ابن عبا س یادوسروں سے یہ نقل ہے کہ ''أن المشركين كانوا إذا أقبلوا بوجوههم إلى المسلمين ضربوا وجوههم بالسيف''مشرکین جب مسلمانوں پرحملہ کرتے توتلوارسے ان کے چہروں پرمارتے تھے''واذاولّو''جب مسلمان فرارکرتے تو''وإذا ولّواضربوا أدبارهم فلا جرم قابلهم اللّه بمثله في وقت خروج أرواحهم ''انہیں ان کے پیچھے سے مارتے تھے ،یہ بات صحیح نہیں ہے! واضح ہے کہ قابل قبول بات نہیں ہے،آیت میں  کافر کے قبض روح کی وقت کی بات ہورہی ہے اوروہاں تلوار سے مارنے سے اس کا کوئی ربط ہے۔
 
ابن عباس کے اس قول پرپہلا اشکال تو یہ ہے کہ یہ بات اس نے پیغمبر اکرم ۖ سے نقل نہیں کیا ہے بلکہ اس نے اپنی طرف سے بولا ہے،اگرہم ان کی تمام باتوں کو قبول بھی کر لے تو ان کی یہ بات تو صحیح نہیں ہے۔
 
ظالم ،کافراورمشرک کے قبض روح کے بارے میں مورد بحث آیت کریمہ کے علاوہ یہ آیات بھی ہیں:‘‘ وَ لَوْ تَرى‏ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ وَ ذُوقُوا عَذابَ الْحَريق’’ایک اور آیت یہ ہے ‘‘وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِبا’’ اوراس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو خداپرجھوٹاالزام لگائے ‘‘أَوْ قالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْ‏ء’’ وہ کہتاہے مجھ پر اس طرح وحی ہوئی ہے لیکن حقیقت میں اس پر کوئی چیز وحی نہیں ہوئی ہے‘‘وَ مَنْ قالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ ما أَنْزَلَ اللَّه’’اورجو یہ کہتا ہے کہ میں بھی خدا کی طرح کتاب نازل کرسکتا ہوں،مجمع البیان میں مرحوم طبرسی نے لکھا ہے :''نزلت في مسيلمة حيث ادعى النبوة''یہ آیت کریمہ مسیلمة کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اس نے نبوت کا دعوا کیا تھا،اوربعض دوسروں نے کہا ہے یہ آیت عبد اللہ بن سعد بن ابی صرح کے بارے میں ہے ''کان یکتب الوحی للنبی فکان اذا قال لہ اکتب علیماً حکیماً کتب غفوراً رحیماً''عبد اللہ بن سعد بن ابی صرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا کاتب وحی تھا ، جب پیغمبر اکرم نے اسے ''علیما حکیماً ''لکھنے کوفرماتاتووہ''غفوراًرحیماً'' لکھتا تھا،یا پیغمبر اکرم ۖاسے''غفورارحیما'' لکھنے کا فرماتے تووہ''علیما حکیماً’’لکھتاتھا''وارتدّو لحق بمکة '' اس کے بعد وہ مرتد ہو کر مکہ چلا گیا اوردوبارہ مشرکین سے جاملے اور ان سے کہنے لگے :''سأنزل مثل ما انزل اللہ ''۔
 
ہماری موردبحث آیت کریمہ کا آخری حصّہ ہے کہ فرماتا ہے:‘‘وَلَوْ تَرى‏ إِذِ الظَّالِمُونَ في‏ غَمَراتِ الْمَوْتِ’’ظالمین موت کی سختیوں میں ہیں ،یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو شخص ظالم ہو،فرق نہیں ظالم اعتقادی ہوجیسے کفاراورمشرکین کہ اعتقادی لحاظ سے ظالم ہیں،یاعمل کے لحاظ سے ظالم ہوں جیسے فاسق کہ بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ یہ آیت کریمہ بنی امیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے،معاویہ اوراس کے تابعین اور پیروکاراس میں شامل ہیں’غَمَراتِ الْمَوْتِ موت کی سختیاں ہیں‘‘وَ الْمَلائِكَةُ باسِطُوا أَيْديهِم’’ فرشتے اپنے ہاتھ بڑھائے ہوئے کفاراورظالموں سے کہہ رہے ہیں‘‘ْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُم’’اپنی جان کو نکال لو‘‘الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ بِما كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَق’’الیوم یعنی آج قبض روح کے دن تمہیں رسواکرنے والی عذاب دیا جائے گا کہ روایات میں نقل ہوا ہے کہ جہنم سے ایک پینے والی چیز کولایا جائے گا اوراسے پلائے گا جس کی وجہ سے اس کی پیاس اورعطش قیامت تک باقی رہے گا،یہ سب اس لیے ہے کہ تم نے خدا سے جھوٹے بیانات نسبت دی اورالزامات لگائے‘‘وَ كُنْتُمْ عَنْ آياتِهِ تَسْتَكْبِرُون’’اورخداکی نشانیوں سے انکاراورتکبرکیاتھا۔
 
اسی طرح یہ آیت بھی ہے‘‘الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظالِمي‏ أَنْفُسِهِمْ فَأَلْقَوُا السَّلَم’’ ۔
 
تفسیربرہان میں ایک مفصل روایت ہے آیت کریمہ کے مطالب واضح ہونے کے لئےاس میں سے بعض کویہاں پربیان کروں گا آیت کریمہ کا ظاہر یہی ہے کہ جب قبض روح شروع ہوتا ہے تواسی وقت کافر کے ظاہری بدن پرماراجاتاہے اگرچہ ہم اس مارنے کو متوجہ نہ ہو جائے ،بعض روایات  میں ہے کہ بعض اوقات محتضر کے اطراف میں لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اورکہتے ہیں کہ کتنی آسانی سے جان دے دی،ان کوخبرنہیں ہے کہ اس محتضر کے ساتھ کیا گزررہاہے اورکن سختیوں سے وہ گزررہا ہے،اس کی آواز کوہم زندہ لوگ نہیں سن سکتے لیکن دوسرے سن رہے ہوتے ہیں،اسی وقت سے سخت عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں‘‘وَلَوْ تَرى‏ إِذِ الظَّالِمُونَ في‏ غَمَراتِ الْمَوْتِ’’موت کی سختیاں اسی قبض روح کے وقت سے ہی ہے،ساری پریشانیاں اسی وقت سے ہے ،یہ روایت جابربن یزید جعفی سے نقل ہے کہ جابربن یزید جعفی ثقہ ہے،اگرچہ شہید صدر رضوان اللہ علیہ اپنے بحث اصول میں ان پرایک اشکال کیا ہے لیکن ہم نے ان کی اس اشکال کا جواب دیا ہے،جابربن جعفی امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ''إِذَا أَرَادَ اللَّهُ قَبْضَ الْكَافِرِ''جب خدا کسی کافر کا قبض روح کرنا چاہتا ہے''قَالَ يَا مَلَكَ الْمَوْتِ انْطَلِقْ أَنْتَ وَأَعْوَانُكَ إِلَى عَدُوِّي''ملک الموت سے فرماتا ہے:تم اپنے اعوان وانصارکے ساتھ میرے دشمن کے پاس چلے جاؤ ''فَإِنِّي قَدْ أَبْلَيْتُهُ فَأَحْسَنْتُ الْبَلَاءَ وَ دَعَوْتُهُ إِلَى دَارِ السَّلَامِ فَأَبَى’’میں نے اسے اسلام اوربہشت کی طرف دعوت دی،وہ خود اس طرف نہیں آیا ہے'' إِلَّا أَنْ يَشْتِمَنِي وَ كَفَرَ بِي وَ بِنِعْمَتِي'' اس نے مجھ سے بدزبانی کی اورمیری نعمتوں کوفراموش کیا ''وَشَتَمَنِي عَلَى عَرْشِي'' میرے اتنی عظمت اورقدرت کے باوجود اس نے مجھے گالی گلوچ دی ''فَاقْبِضْ رُوحَهُ حَتَّى تَكُبَّهُ فِي النَّارِ''اس کے روح کوقبض کرلوتا کہ اسے جہنم میں ڈال دیں''فَيَجِيئُهُ مَلَكُ الْمَوْتِ''اس وقت ملک الموت اس کے پاس آتا ہے '' بِوَجْهٍ كَرِيهٍ كَالِح'' ایک بہت ہی ترش رو چہرہ کے ساتھ اس کے پاس آتا ہے '' عَيْنَاهُ كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ''اس کافر کے لئے ملک الموت کی آنکھیں گرج چمک کی طرح ہے ایسی گرج کہ اسے حیران وسرگردان کر ے ''وَصَوْتُهُ كَالرَّعْدِ الْقَاصِفِ '' اوراس کی ایک ڈراؤنی آواز ہے ''لَوْنُهُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ''اس کا رنگ رات کی تاریکی کی طرح سیاہ ہے '' نَفْسُهُ كَلَهَبِ النَّارِ''وہ جوسانس لے رہاہوتاہے ایسا لگتا ہے  جیسے زبان سے آگ کا شعلہ نکل رہا ہو''رَأْسُهُ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَ رِجْلٌ فِي الْمَشْرِقِ وَ رِجْلٌ فِي الْمَغْرِبِ وَ قَدَمَاهُ فِي الْهَوَاءِ مَعَهُ سَفُّودٌ كَثِيرُ الشُّعَبِ''سرآسمان پراورایک پاؤں مغرب کی طرف اوردوسرا پاؤں درمیان میں لٹکے ہوئے''مَعَهُ خَمْسُمِائَةِ مَلَكٍ أَعْوَاناً''اس کے ساتھ اس کےپانچ سو(٥٠٠) ساتھی ہیں'' مَعَهُمْ سِيَاطٌ مِنْ قَلْبِ جَهَنَّمَ ''اوران میں سے ہرایک جہنم سے ایک نیزہ ساتھ لیاہواہے ۔
 
ان سب کے ساتھ جہنم کا خزانہ دارفرشتہ بھی آتا ہے‘‘يُقَالُ لَهُ سَحْقَطَائِيلُ’’جس کانام سحقطائيل ہے''فَيَسْقِيهِ شَرْبَةً مِنَ النَّارِ لَا يَزَالُ مِنْهَا عَطْشَاناً حَتَّى يَدْخُلَ النَّارَ''اوراسے ایک شربت پلاتاہے جو اسےبہت ہی پیاسا کرتا ہے اورجہنم میں داخل ہونے تک ایسا ہی رہے گا'' فَإِذَانَظَرَإِلَى مَلَكِ الْمَوْتِ شَخَصَ بَصَرُهُ وَطَارَعَقْلُهُ''جب ملک الموت اس شخص کی طرف دیکھتاہے تویہ حیران اورسرگردان اورپاگلوں جیسا ہوکرکہتاہے:''يَامَلَكَ الْمَوْتِ ارْجِعُونِي قَالَ فَيَقُولُ مَلَكُ الْمَوْتِ كَلَّا إِنَّها كَلِمَةٌ هُوَقائِلُها''اے ملک الموت مجھے واپس پلٹا دو،اس وقت ملک الموت کہے گا:یہ ہرگزنہ ہونے والا کام ہے،یہ تمہاری بیہودگی ہے جو زبان سے جاری کررہے ہو''فَيَضْرِبُهُ بِالسَّفُّودِضَرْبَةً فَلَايَبْقَى مِنْهُ شُعْبَةٌ إِلَّاأَنْشَبَهَا فِي كُلِّ عِرْقٍ وَمَفْصِلٍ'' ملک الموت لوہے کے سوئیوں والی ایک صفود سے اس کافر کے بدن پراس طرح مارتا ہے کہ بدن کا کوئی نص باقی نہیں بچتاجس میں یہ سوئی داخل نہ ہوئی ہو!'' ثُمَّ يَجْذِبُهُ جَذْبَةً فَيَسُلُّ رُوحَهُ مِنْ قَدَمَيْهِ بَسْطاً''جب اس کافر کواس چیزسے مارتا ہے اس کے بعد جلدی جلدی سے نکالنا شروع کرتا ہے''فَإِذَا بَلَغَتِ الرُّكْبَتَيْنِ''اسی دوران اس کا روح نکل کر اس کے رانوں تک پہنچ جاتا ہے'' أَمَرَأَعْوَانَهُ فَأَكَبُّوا عَلَيْهِ بِالسِّيَاطِ ضَرْباً''روایت کا ظاہر یہ ہے کہ پہلے خودملک الموت شروع کرتا ہے جب روح کچھ نکل جاتا ہے اوررانوں تک پہنچ جاتا ہے تواپنے ساتھیوں سے کہتا ہے اب تم مارنا شروع کرو''ثُمَّ يَرْفَعُهُ عَنْهُ فَيُذِيقُهُ سَكَرَاتِهِ وَغَمَرَاتِهِ قَبْلَ خُرُوجِهَا''اس طرح بدن سے روح نکلنے سے پہلے وہ سکرات موت اور موت کی سختیوں کوتحمل کرتا ہے'' كَأَنَّمَا ضُرِبَ بِأَلْفِ سَيْفٍ'' گویاہزارتلواروں سے اس کے بدن پر مارا ہے'' فَلَوْ كَانَ لَهُ قُوَّةُ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَاشْتَكَى كُلُّ عِرْقٍ مِنْهُ عَلَى حِيَالِهِ''۔
 
یہ سب قرینہ ہے آیت کریمہ کے لئے کہ اس میں‘‘يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ’ سے مراد پورابدن ہے اگر یہ روایت نہ ہوتی تب بھی خود آیت کریمہ سے یہی استفادہ  ہوتاتھا کہ ‘‘يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ’’اسی ظاہری بدن کی نسبت ہے اورسورہ انعام کی آیت جو بیان ہوا اس میں سارے ظالمین شامل ہیں یہ صرف کفاراورمشرکین سے مخصوص نہیں ہے،اگرچہ اس روایت میں کافرکے قبض روح کی بارے میں بتایا ہے ،البتہ یہ واضح ہے کہ کافر کا قبض روح دوسروں سے زیادہ شدید ہے ،لیکن یہ سب مراتب کے اختلاف کے ساتھ آیات کریمہ میں شامل ہیں ۔
 
حقیقتاً ہم بہت سارے مطالب سے بے خبر ہیں؛ہمیں معلوم نہیں ہے کہ مؤمن کے قبض روح کیسے ہوگا،کافرکاقبض روح کیسے ہے؟ فقط انہیں روایات سے ہم ان کے بارے میں کچھ جزئیات کو جان لیتے ہیں''فَإِذَا أُتِيَ بِرُوحِهِ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا أُغْلِقَتْ عَنْهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ''جب اس کی روح کو دنیا کے آسمان پرلے جاتے ہیں توآسمانوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کہ سورہ اعراف میں ہے‘‘لا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوابُ السَّماء’’ آسمان سے خطاب آتا ہے ''يَقُولُ اللَّهُ رُدُّوهَا عَلَيْهِ ''اسے اسی زمین کی طرف واپس پلٹا دو '' فَمِنْهَا خَلَقْتُهُمْ وَ فِيهَا أُعِيدُهُمْ وَ مِنْهَا أُخْرِجُهُمْ تَارَةً أُخْرَی''
 
ہم نے عرض کیا‘‘الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظالِمي‏ أَنْفُسِهِم’’ یہ آیت کریمہ مستکبرین کے بارے میں ہےاور‘‘وَلَوْتَرى‏ إِذْيَتَوَفَّى الَّذينَ كَفَرُواالْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُم’’  کافروں کے بارے میں ہے ،لیکن یہ آیت کریمہ‘‘فَكَيْفَ إِذا تَوَفَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَ أَدْبارَهُمْ ’ذلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا ما أَسْخَطَ اللَّهَ’’ قبض روح کرنے کے لئے فرشتے انہیں مارتے ہیں یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ان باتوں کی اتباع کیا ہے جوخدا کو ناراض کرنے والی ہیں،اورخداکوناراض کرنے والے کاموں کوانجام دیاہے اورخداکے پسندیدہ امورکو ترک کیا ہے،بعض تفسیروں میں لکھا ہے کہ ان کی چہروں پراس وجہ سے مارتے ہیں کہ انہوں نے گناہ کی طرف روکیاتھا،گناہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں خدا کی ناراضگی ہے،شرک،فسق اورہرگناہ خدا کے غضب اورناراضگی کا سبب ہے اسی وجہ سے ہے کہ بعض روایات میں ہے کبھی بھی گناہ کوچھوٹا نہ سمجھو کیونکہ ممکن ہے اسی چھوٹے گناہ میں خدا کی ناراضگی ہو،اگرانسان کوئی ایساکام انجام دے جس میں خدا کی ناراضگی ہوتو قبض روح کے وقت وہ ایسے ہی عذاب کا مستحق ہوتا ہے اوراگر کسی کام میں خدا کی خوشنودی ہو اوراسے انجام نہ دے تو وہ بھی قبض روح کے وقت اسی طرح کے عذاب کا مستحق ہو گا،آیت کریمہ میں ''ذلک''علت ہے،کیوں ان کے چہروں اورپشت پرماراجاتاہے؟''لانہم عملوااتبعوامااسخط اللہ''کیونکہ انہوں نے ایسے کام کو انجام دیا ہے جس میں خدا کی ناراضگی ہے،یہ تعلیل عام ہے یعنی جوبھی ایساکام انجام دیے جس میں خدا کی ناراضگی ہوں اسے ایسی ہی عذاب کے لئے تیارہوناچاہئے کہ مرتے وقت وہ ایسی ہی بلاؤں میں گرفتارہوں گے،اسی طرح یہ آیت بھی ہے:‘‘وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً أَوْ قالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَ لَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْ‏ءٌ ’’ امام باقرعلیہ السلام سے ایک روایت ہے کہ فرماتا ہے :''ومن ادعی امام دون الامام''جو شخص امام نہیں ہے اورامامت کا دعوا کرے،یہ بولے کہ میں خدا کی طرف سے امام ہوں،وہ بھی اسی عذاب کا مستحق ہے،امام نے ایک واضح مصداق کو بیان فرمایا ہے،میں یہاں یہ عرض کروں گا کہ آیت کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسی چیزکو اسلام کے ساتھ لگا لیں اوریہ بو لیں کہ اسلام یہ بتاتا ہے لیکن حقیقت میں اسلام میں کوئی ایسی چیز نہ ہو،چونکہ فرماتا ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً’’ قرآن کریم میں ایک بہت ہی اہم چیزجوخدا کی ناراضگی کاسبب ہونے کو بتایا ھے یہ ہے کہ انسان خدا سے جھوٹاالزام لگائے اور کسی حلال چیزکو حرام قرار دے اور کسی حرام کو حلال قراردے ۔
 
اس مطلب کو ہم یوں بھی بیان کر سکتے ہیں کہ''لانہم عملوااتبعوامااسخط اللہ''اس کا ایک مصداق‘‘مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً’’ہے یعنی خداکوناراض کرنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ جاہل انسان جودین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا وہ یہ بولے کہ اسلام یہ بتاتاہے ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ ہمارے زمانے میں یہ بہت زیادہ واقع ہوا ہے ایک طلبہ جو طلبگی کے ابتدائی سالوں میں ہے وہ اگر فتوا دینا چاہئے،تو اسی‘‘عملوااتبعوامااسخط اللہ’’کے مصادیق میں سے ہوگا،اس کافتوابغیرعلم ہے،اس مسئلہ کے بارے میں اس نے کچھ پڑھا ہی نہیں ہے یا پڑھا ہے توغوروفکرنہیں کیا ہے تحقیق نہیں ہوا ہے اورفتوا دیں تو‘‘افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً’’کے مصداق بن جائے گا ۔
 
البتہ بعض فقہااورمجتہدین ہیں کہ ذہن میں موجود قواعد اوراصول کے مطابق ایک نتیجہ لیتاہے اورفتوادیتا ہے تو یہ فتوابغیر علم نہیں ہے بلکہ علم کے ساتھ ہے لیکن جوشخص ان چیزوں کونہیں جانتا ،مثلاًحجاب کے بارے میں بعض نے یہ بتایا کہ قرآن کریم میں چادرکے نام سے کوئی چیزنہیں ہے،افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتا ہے کہ حوزہ علمیہ سے بھی بعض طلاب نے ایسا بیان دیا تھا،یقیناہمیں ان افراد کے آیندہ کے بارے میں خوف ہونا چاہئے،ایک جواب طلبہ جواپنی ابتدائی جوانی کے دورمیں یہ بتائیں کہ قرآن میں کوئی ایسی چیزنہیں ہے،اوراس باطل مطلب کی تاییدکرے،درحالیکہ قرآن کریم میں صریحاً سورہ مبارکہ احزاب میں خدا نے چادر کے بارے میں بیان فرمایا ہے تو یہ سب ‘‘مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً’’کے مصادیق میں سے ہیں۔
 
پس نتیجہ یہ ہوا کہ ہم آیت کریمہ کے ذیل سے یہ استفاد ہ کرتے ہیں کہ قبض روح کے وقت کی یہ سختیاں صرف مشرک اورکافروں کے لئے نہیں ہے ،بلکہ یہ ان سب کے لئے ہیں جوخدا کو ناراض کرے اورکوئی ایسا کام انجام دیں جس میں خدا کی ناراضگی ہو ۔

و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين

برچسب ها :


نظری ثبت نشده است .