موضوع: قرآنی دروس
تاریخ جلسه : ١٣٩٠/١٠/١٧
شماره جلسه : ۵
چکیده درس
-
“الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون
-
طیّب یعنی جو ظلم کی خباثت سے پاک ہوں یہ طیّب کبھی کلام کی صفت بھی واقع ہوتی ہے
دیگر جلسات
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله رب العالمين و صلي الله علي سيدنا محمد و آله الطاهرين
“الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ
الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ ادْخُلُوا
الْجَنَّةَ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُون “ہماری گفتگو اس آیت کریمہ میں
بارے میں تھی کہ جب فرشتے مؤمن کی قبض روح کرتا ہے تو اس کی تین خصوصیات
ہیں کہ بیان ہوا ،یہاں پرعلامہ طباطبائی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ایک بحث
کی ہے انہوں نے طیّب کے چند معانی کو بیان کرنے کے بعد ایک نتیجہ لیا ہے
فرماتا ہے: طیّب یعنی جو ظلم
کی خباثت سے پاک ہوں،ظلم کی گندگی سے پاک و منزہ ہوں،ان کی وجودمیں کوئی
ظلم نہیں ہے،علامہ کی عبارت یہ ہے:
والطيب تعري الشيء مما يختلط به فيكدره'' اگر کسی چیز میں باہر
سے کوئی چیز آکر داخل ہو جائے تو اسے گندلا کرتا ہے ''ويذهب
بخلوصه و محوضته '' اس کی خالصی اوراصلی کیفیت ختم ہوجاتی ہے
،،اگر ایسی چیزوں سے خالی ھوں توعرب اسے طیّب کہتے ہیں،عرب کہتے ہیں : ''طاب
لي العيش أي خلص وتعرى مما يكدره وينقصه'' طاب یعنی اس چیز سے بچا
ہوا ہونا جواسے آلودہ کرتا ہے اورخالص ہونا ''والقول
الطيب ما كان عاريا من اللغووالشتم و الخشونة ''بعد میں فرماتا ہے
یہ طیّب کبھی کلام کی صفت بھی واقع ہوتی ہے''الکلام الطیّب'' کلام طیّب سے مراد وہ کلام ہے جس میں کوئی بیہودہ گی
نہ ہو،جس میں گالی گلوچ نہ ہو،سختی نہ ہو،اورہروہ چیزجوکلام کوآلودہ کرتاہے
ان سب سے پاک ہوں،اس کے بعد فرماتا ہے کہ طیّب اورطہارت میں بھی فرق ہے''أن
الطهارة كون الشيء على طبعه الأصلي بحيث يخلوعما يوجب التنفرعنه ''
طہارت یہ ہے کہ کسی چیز کی اصل اور ذات ایسے ہو جس میں نفرت اورناپسندیدہ
کوئی چیز نہ ہوں لیکن ''والطيب
كونه على أصله من غير أن يختلط به ما يكدره ويفسد أمره سواء تنفرعنه أم لا
'' طیّب سے مراد یہ ہے کہ کسی شیء میں اس کے خارج سے کوئی چیز داخل
نہ ہو جائے ،طاہر یہ ہے کہ اس کے ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو نفرت
اورناپسندیدہ گی کا سبب ہو،لیکن طیب سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیزخارج سے آکر
اسے گندا نہ کرے،جیسے کلام طیّب ،انسان طیّب کہ سورہ اعراف میں ہے وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَ الَّذي خَبُثَ
لا يَخْرُجُ إِلاَّ نَكِدا ‘‘اور پاکیزہ زمین اپنا سبزہ اپنے رب کے
حکم سے نکالتی ہے اورخراب زمین کی پیداوار بھی ناقص ہوتی ہے’’آیت کریمہ میں
بلد طیب کے مقابلہ میں بلد خبیث ذکر ہواہے۔
علامہ یہاں پریہ نتیجہ لیتاہے کہ ''فالمراد
بکون المتقین طیبین فی حال توفیہم خلوصہم من خبث الظلم '' متقین وہ
ہیں جن کے مرنے کے وقت سوئی کے نوک کے برابر بھی ظلم کی خباثت اورآلودگی ان
کے نفس میں موجود نہ ہوں ان کے مقابل میں مستکبرین ہیں کہ اسی سورہ کے ایک
اور آیت میں فرماتا ہے: الَّذينَ
تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظالِمي أَنْفُسِهِم’’ وہ لوگ جنہوں نے
اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ،علامہ یہ نتیجہ لیتا ہے ''ان المتقین ہم الذی تتوفاہم الملائکة متعرّین عن خبث الظلم
'' متقین وہ ہیں کہ جب فرشتے ان کے قبض روح کرتے ہیں تو ان کا نفس
ظلم کے خباثت اورکثافتوں سے پاک ہوتا ہے ،ظلم کیا ہے ؟ گناہ ،شرک ظلم ہے
،فرق نہیں اعتقادی ظلم ہویاعملی ظلم ،روایات میں آپ نے پڑھا کہ جوشخص
اعتقادی لحاظ سے مشرک ہے اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ،اورجو شخص گناہ
کرتا ہے اس نے بھی اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور ظالم ہے ''فالآیة
تصف المتقین بالتخلص عن التوصف للظلم ''آیت کریمہ متقین کی یوں
تعریف کرتا ہے کہ یہ لوگ ظالم نہیں ہیں ،آیت میں ہے
يَقُولُونَ سَلامٌ عَلَيْكُمْ
یعنی ''ہوتامین قولی لہم
''یہ ایک قولی امان ہے ، فرشتے جو سلام علیکم کہتے ہیں یہ انسانوں کے آپس
کے سلام سے مختلف ہے ! روایات میں ہے کہ شب قدرجب فرشتے آسمان سے زمین
پرآتے ہیں توسلام علیکم کہتے ہیں،یہ اس سلام علیکم سے مختلف ہے جوہم آپس
میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں ،فرشتے کہیں داخل ہونے کے لئے سلام نہیں کرتے
بلکہ ان کی یہ سلام انسان کو شیطان سے کامل طورپر امان میں ہونے کو بیان
کے لئے ہے ، یعنی اس رات تم خدا سے جو کچھ طلب کرنا ہے طلب کرو ، شیطان آج
کی رات تمہارے ارد گرد ہیں آسکتا،پاک اور پاکیزہ نفس کے ساتھ خدا سے جو کچھ
طلب کرنا ہے طلب کرو،متقی انسان جب دنیا سے چلاجاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ اس
دنیا سے ایک ایسی نفس کولے کر ملکوت اعلی میں پرواز کرتا ہے کہ اس میں سوئی
کے نوک کے برابر بھی ظلم کی برائی نہیں پائی جاتی !اوران کوامن میں ہونے کی
بشارت دیتا ہے :سلام علیکم ،اورتیسرا یہ ہے کہ فرماتا ہے ''
ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِما
كُنْتُمْ تَعْمَلُون انہیں بہشت کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔
اس کے بعد علامہ فرماتا ہے اس آیت کریمہ کی طرح ایک اورآیت بھی ہے ‘‘الَّذينَ
آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ
وَ هُمْ مُهْتَدُون’’ جو لوگ ایمان لے آئے،خدا یہاں پرایک قانون کلی
کو بیان فرمارہا ہے''الَّذينَ
آمَنُوا''جن لوگوں نے ایمان لائے ہیں،اوراپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ
نہیں کیا ہے یعنی ان سے کوئی شرک انجام نہیں پایا ہے ،ان کے ایمان خالص ہے
،اس کے بعد فرماتا ہے ‘‘أُولئِكَ
لَهُمُ الْأَمْنُ’’ان کے لئے امن وامان ہے علامہ فرماتاہے یہ امن
وہی ''سلام علیکم ''ہے
وَهُمْ مُهْتَدُون’’ان
لوگوں کو بہشت کی طرف راہنمائی کرتا ہے ۔
علامہ کی یہ بات صحیح ہے یا نہیں ؟ہم نے پہلے اس آیت کریمہ کا کوئی اورمعنی
بیان کیا تھا :''طیبین ''یعنی''وفاتہم طیّبة'' طیب اورپاک وپاکیزہ وفات
پاتے ہیں ،لیکن علامہ نے فرمایا :''طیّبین ای نفوسہم طیّبون'' ان کی نفوس طیب وطاہرہیں،یعنی
ان کے نفس ظلم سے پاک ہے،علامہ کی اپنی روش اورطریقہ کے مطابق (کہ قرآن سے
قرآن کی تفسیر کرنا ہے)یہاں پردوسری آیت‘‘الَّذينَ
آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ
وَ هُمْ مُهْتَدُون’’کو بیان کیا ۔
ہم خودعلامہ کے اسی راہ وروش پرچلتے ہوئے یہ بتائیں گے کہ ہم قرآن کریم میں
طیّب کے موارداستعمال کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں کہ کلمہ طیّب کہاں کہاں
استعمال ہوا ہے؟‘‘فَتَيَمَّمُوا
صَعيداً طَيِّبا ’’ اس آیت میں طیّب مٹی کی صفت واقع ہوئی ہے ،جب
مٹی کو طیّب بولتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ خراب کرنے والی چیزوں سے
پاک ہے خلوص الشیء اما یکدّرہ'' یعنی خالص مٹی ہو،یعنی وہ مٹی جس میں مٹی
کے علاوہ کوئی اور چیزنہ ہو،لہذا صعیداً طیباً سے مراد خالص مٹی ہے،لیکن اس
سے مراد روی زمین کی ہرقسم کی مٹی مراد ہے یا صرف خالص مٹی مراد ہے ؟اس
بارے میں گفتگو فقہی کتابوں میں موجود ہے ۔
ایک اورآیت یہ ہے‘‘وَهُدُوا إِلَى
الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ’’ قول طیّب کا مرحوم علامہ نے یہ معنی کیا
ہے کہ ایسی بات جس میں کوئی بیہودگی نہ ہو،گالی گلوچ نہ ہو ، اسی طرح قرآن میں
(کلمة طیّبة ) ذکر ہوا ہے ،یا یہ آیت‘‘فَانْكِحُوا
ما طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ’’ کہ اس میں نساء (عورتوں)کوطیب کہا گیا
ہے اسی طرح یہ آیت‘‘وَسيقَ الَّذينَ
اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً حَتَّى إِذا جاؤُها وَ فُتِحَتْ
أَبْوابُها وَقالَ لَهُمْ خَزَنَتُها سَلامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها
خالِدينَ’’ یہ آیت روز محشر کے بارے میں ہے کہ یہ لوگ ایک ساتھ بہشت
میں داخل ہوتے ہیں ، بہشت کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں ،اس وقت بہشت
کے خزانہ داران سے کہیں گے:سَلامٌ
عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوها خالِدينَ ۔
رزق کے بارے میں جب ہم رزق طیب ،مال طیب بولتے ہیں تو اس سے مراد رزق حلال
اورپسندیدہ اورلذیذ رزق ہے،لہذا ہمیں قرآن کریم میں یہ دیکھنا چاہئے کہ لفظ
''طیب''کس چیز کے لئے
استعمال ہوا ہے ؟ اسی لحاظ سے اس کا معنی کرنا ہوگا ۔ مرحوم علامہ نے
جومعنی بیان کیا ہے وہ صحیح ہے اس (طیب)کا لغوی معنی ہے''تعرّ
الشیء اما یکدّرہ ''یعنی جوچیزاس کے خراب کرنے کا سبب ہو وہ اس میں
نہ پایا جائے اسے طیب کہتے ہیں ،اگر ہم قرآن کریم میں کلمہ ''طیّب
'' کے استعمال کے موارد پر نظر کریں تو اس کے متعلق کے لحاظ سے اس کا معنی
مختلف ہوتا ہے ،کلام طیّب، رزق طیّب، صعیدطیب، قول طیّب،نساء طیّب ان سب
میں طیّب کے متعلق کے لحاظ سے اس کا معنی بھی مختلف ہوگا،یہاں تک ہم مرحوم
علامہ کے قول کو قبول کرتے ہیں اور ان کے موافق ہیں۔ لیکن ہماری گفتگو اس
آیت کریمہ میں ہے :‘‘الَّذينَ
تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ’’ اس میں طیّبین کیامتقین
کی نفوس کی صفت ہے،کہ اس صورت میں ہم یہ بتائیں گے کہ ان کے نفوس پاک
اورطیّب ہیں ،نفوس طیّبہ،اگر یہ صحیح ہوتوعلامہ کی بات صحیح ہے، یعنی ظلم
کی گندگی سے پاک ہے،متقی وہ ہے جس کے دنیا سے جاتے ہوئے ایک پاک نفس ہوتا
ہے،ظلم سے خالی نفس کامالک ہے،اس کے بعدعلامہ کے باقی مطالب بھی صحیح
ہوجاتے ہیں،اوراسی طرح دوسری آیت بھی ہے‘‘الَّذينَ آمَنُوا وَ لَمْ يَلْبِسُوا إيمانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولئِكَ لَهُمُ
الْأَمْنُ وَ هُمْ مُهْتَدُون’’لیکن اگر کوئی یہ احتمال دیں کہ یہ
طیّبین نفوس کی صفت نہیں ہے بلکہ یہ توفیة نفوس کی صفت ہے یعنی ان کی وفات
اورقبض روح طیّبین ہے (توفیتہم و وفاتہم طیبین) :‘‘الَّذينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ’’ یعنی ان کی
وفات طیب ہے،اگران کی وفات طیّب ہویعنی ظلم کی خباثت سے پاک ہو،تو اس صورت
میں وفات کا ظلم کی آلودگی سے پاک ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے !۔
ہماری نظر میں آیت کریمہ کا ظاہر یہی ہے ،یعنی جس معنی کو ہم نے کل بیان
کیا تھاآیت کریمہ اسی میں ظہور رکھتی ہے :‘‘الَّذينَ
تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ طَيِّبينَ’’ اگر ہم یہ بتائیں کہ
متقین طیّبین ہیں توعلامہ کی بات صحیح ہے کہ یہ لوگ ہرقسم کی ظلم وبربریت
سے پاک و منزہ ہے ،نہ اعتقادی ظلم کے مرتکب یوتے ہیں اورنہ عملی ظلم جوکہ
گناہ ہے،لیکن آیت کریمہ اس کو بیان کرنے کے مقام میں نہیں ہے ،متقین مرنے
سے پہلے بھی طیّبین ہیں ، آیت کریمہ یہ بیان کرنا چاہتی ہے کہ جب وفات شروع
ہوتی ہے،تویہ صفت آتی ہیں ، طیّبین
’ یقولون سلام علیکم ’ادخل
الجنة بما تعملون،،یہ تینوں وفات کے بعد کی ہے،اگر وفات کے بعد کے
لئے ہے تو ان تینوں کو وفات کی صفت قرار دینا چاہئے،یعنی ان کی وفات طیّب
ہے۔
اس کے لئے ایک مثال یہ ہے کہ قرآن اورروایات میں اگر''عیش
طیّب'' ذکرہوتو عرب اسے ایک آسودہ زندگی معنی کرتے ہیں،آیت کریمہ
میں بھی طیّبہ ،توفیہ سے مربوط ہے یعنی ایک راحت اورآسودہ وفات ۔
و صلي الله علي محمد و آله الطاهرين
نظری ثبت نشده است .